2016 میں آزاد کشمیر کے الیکشن کے دوران پاکستان کی اپوزیشن پارٹیز نے صرف ووٹ حاصل کرنے کے لئے اس وقت کی حکومت کو مودی کی دوست حکومت قرار دیا اور کشمیر کے لوگوں کے جذبات ابھارنے کے لئے نعرہ لگایا کہ مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں تھا جب کسی حکومت کو اس قسم کے رویے کا سامنا تھا۔ ہمارے ملک میں الیکشن کے بعد خود وہی پارٹیاں بھارت کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھاتی ہیں اور پھر اگلے الیکشنز میں اسی دوستی کو غداری کا نعرہ برداشت کرتی ہیں۔ پاکستان میں جب بھی الیکشن ہوتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت، امریکہ اور اسرائیل کے خلاف کسی وجہ سے سیاستدانوں کی طرف سے تنقید شروع ہو جاتی ہے۔ پہلے تو یہ ممالک اس بات کو اہمیت دیتے تھے کہ ان کو بلاوجہ تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے مگر اب کچھ الیکشنز سے ان ممالک نے جواب دنیا بند کر دیے ہیں کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ پاکستان کے سیاستدان صرف الیکشنز کے لئے انہیں تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
یہی حال بھارت کا ہے۔ بھارت یا مقبوضہ جموں کشمیر میں جب بھی الیکشنز ہونے ہوتے ہیں تو بارڈر پر کشیدگی شروع ہو جاتی ہے اور وہاں کے سیاست دان صرف اپنے ذاتی سیاسی فائدے کے لئے پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ مودی جی نے کچھ دن پہلے پاکستان کے کلاف خوب زبان استعمال کی اور ہم نے دیکھا کہ ان کے اس رویہ کی وجہ سے ان کو بہت سی ریاستوں میں سیاسی کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ بھارت میں 2019 میں الیکشنز ہونے جا رہے ہیں، اس لئے وہاں آج کل پاکستان کے خلاف خوب تنقید کی جا رہی ہے۔ اور اس کا زیادہ شکار نوجوت سنگھ سدھو ہوئے ہیں۔ نوجوت سنگھ کانگریس پارٹی کے رہنما ہیں اور انہوں نے حال ہی میں پاکستان کا دورہ کیا تھا جہاں ان کی ملاقات پاکستان کے آرمی چیف سے ہوئی تھی۔ اسی بات کو بنیاد بنا کر سدھو کے خلاف پروپگنڈا کیا جا رہا ہے اور ان کو پاکستان کا ایجینٹ کہہ کر پکارا جا رہا ہے۔
پاکستان اور بھارت کی جنگوں کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو الیکشنز کے دنوں میں ہونے والی تنقید کا بہت عمل دخل نظر آتا ہے۔ سیاستدان ان دنوں میں دونوں طرف کی عوام کے جذبات کو اس حد تک ابھارتے ہیں کہ اگلے الیکشنز آنے تک عوام مخالف ملک کے خلاف نفرت کا اظہار کرتی رہتی ہے۔ ایک اور سب سے اہم بات ان دونوں میں جب کسی بھی ملک میں الیکشنز ہونے والے ہوں تو ممالک کے درمیان تمام قسم کے تعلقات ختم کر دیے جاتے ہیں اور جن معاملات کو حل کیا جا سکتا ہے وہ بھی ان الیکشنز کی کمپین کی نذر ہو جاتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت سب سے اہم ایشو کشمیر یہ بات چیت اس وقت شروع کرتے ہیں جب دونوں ملکوں میں الیکشنز گزر چکے ہوں یا پاکستان میں فوجی حکومت کام کر رہی ہو۔
یہ المیہ ہم دونوں ممالک کا ہے کہ ہر پانچ سال بعد الیکشنز کرانے ہوتے ہیں اور الیکشنز بھی مختلف وقت میں۔ اگر ایک وقت میں الیکشنز ہوں تو پھر بھی کچھ بہتر ہے اور نفرت کی آگ بھڑکنے کے لئے وقت کم ہوگا۔