اس دستاویز میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بہت بڑے انکشافات کیے ہیں۔ جس میں نہ صرف وہ اپنے خلاف دائر ہونے والے ریفرنس کے محرکات سامنے لائے بلکہ سابق چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کے ساتھ چہل قدمی کرتے ہوئے ہوئی ایک گفتگو کو بھی منظر عام پر لائے ہیں۔ اس گفتگو کے دوران قاضی فائز عیسیٰ کے مطابق سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا انہیں خفیہ طور پر ریفرنس کے بارے میں بتانے کا مقصد ان کا استعفا لینا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آصف سعید کھوسہ نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ انہوں نے مجھے اپنے چیمبر میں نجی ملاقات کے لئے بلا کر نجی گفتگو کی۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ سابق چیف جسٹس نے کیا سوچ کر یہ بات لکھی، کیا دفتری اوقات میں دفتر میں بیٹھ کر نجی ملاقات ہو سکتی ہے؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس ملاقات میں ہوئی باتوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے لکھا ہے کہ ملاقات سے قبل ان کی اور چیف جسٹس کی سپریم کورٹ کی عمارت میں چہل قدمی کے دوران گفتگو ہوئی جہاں انہوں نے جسٹس فائز عیسیٰ کو رازداری میں بتایا کہ ان کے خلاف ایک ریفرنس ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ان کا مقصد شاید مجھ سے استعفا لینا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سابق چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کے اس بیان کی تردید کی جس کے مطابق جسٹس عیسیٰ نے ریفرنس کے نکات نوٹ کرنے کے لئے ان سے پنسل اور کاغذ مانگا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’انتہائی معذرت کے ساتھ ایسا بالکل نہیں ہوا‘۔ انہوں نے طنز کرتے ہوئے لکھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے میرے بارے میں یوں فیصلہ دیا گویا مجھے سنے بغیر ان میں میرا ذہن پڑھنے کی صلاحیت ہو حالانکہ سپریم جوڈیشل کونسل کا کوئی بھی رکن ماہر نفسیات نہیں۔
ساتھ ہی ساتھ جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور سپریم جوڈیشل کونسل کے کنڈکٹ کو غیر شفاف، جانبدار اور بد نیتی پر مبنی قرار دیا۔
اپیل میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کمشنر ایف بی آر ذوالفقار احمد پر سوالات اٹھائے اور کہا کہ ریفرنس دائر کرنے سے قبل وہ جسٹس عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے خلاف بغیر اجازت تحقیقات کر رہے تھے۔ ان تحقیقات میں ذوالفقار احمد نے ان کے خلاف رائے بھی دی۔ اسی بنا پر ان کے خلاف ریفرنس بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایسا افسر جو پہلے ہی ان کے خلاف رائے دے چکا ہو وہ دوبارہ کیس کی مزید تحقیقات کا کیسے اہل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیس کی تحقیقت کے لئے اسی ٹیکس کمشنر کا انتخاب واضح بد نیتی پر مبنی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ان کی اہلیہ اس کیس میں فریق نہیں تھیں اور عدالت واضح طور پر قرار دے چکی ہے کہ کسی بھی ایسے شخص کو سزا نہیں دے سکتی جو کیس میں فریق نہ ہو۔ انہوں نے کہا مختصر حکمنامے اور تفصیلی فیصلے کی وجہ سے ان کی اہلیہ تکلیف سے گزریں اور شاید مستقبل میں بھی تکلیف دہ اثرات ان کے لئے بھی ہوں۔ اس لئےعدالت نظر ثانی کرے۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ایف بی آر کے چیئرمینوں کو بار بار ہٹانے اور لگانے کے عمل پر بھی سوال کیا۔ انہوں نے لکھا کہ بار بار غیر قانونی طو پر چیئرمین ایف بی آر تبدیل کرنے سے ادارے کی ساکھ خراب ہوتی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ کو ایف بی آر کے حکم نامے میں ایک تضاد کی نشاندہی کی کہ ایف بی آر کمشنر کو حکم دیا گیا کہ وہ تحقیقات کر کے رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے جمع کروائیں جب کہ سپریم جوڈیشل کونسل ججز کے احتساب کا فورم ہے۔ میں بحثیت جج ایف بی آر کے سامنے فریق نہیں ہوں اور سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے میری اہلیہ فریق نہیں ہیں۔ عدالت کے حکم میں ربط نہیں۔
جسٹس قاضی کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایف بی آر نے نوٹس بھجوانے کا عجیب و غریب طریقہ اختیار کیا۔ ان کے دروازے کے باہر نوٹس چسپاں کیا گیا جیسے کہ وہ کوئی اشتہاری ملزم ہوں۔ انہوں نے اس عمل پر انتہائی دکھ کا اظہار کیا کہ ایف بی آر نے ان کی ججز کالونی میں ہر آنے والے کے سامنے توہین کی اور یہ بد سلوکی جاری رہی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حکومتی عہدیداران جن میں وزیر قانون فروغ نسیم اور شہزاد اکبر بھی شامل ہیں کے کردار پر بھی سوالات اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ غیر قانونی طور پر ان کا ریکارڈ حاصل کیا گیا اور ایف بی آر کو ان کے خلاف رائے دینے پر مجبور کیا گیا۔ میری اہلیہ نے انتہائی جرأت کے ساتھ سپریم کورٹ کے دس رکنی بنچ کے سامنے پیش ہو کر ثبوت فراہم کیے جب کہ فروغ نسیم اور شہزاد اکبر میں ایسی جرأت کبھی نہ ہوئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے شدید مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ میری اہلیہ سرینا عیسیٰ کی رپورٹ مہیا کرنے کی درخواست تو چیئر مین ایف بی آر نے مسترد کر دی لیکن یہ رپورٹ میڈیا کو لیک کر دی گئی اور اس عمل سے وہی عمل دوبارہ دہرایا گیا جب انہیں صدارتی ریفرنس کی کاپی صدر کی طرف سے مہیا نہیں کی گئی لیکن ان کی کردار کشی کے لئے میڈیا کو ریفرنس کی کاپی لیک کر دی گئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپیل میں اہم نقطہ اٹھایا کہ ان کی اہلیہ کو سزا سنا کر دراصل ان کا بطور جج رتبہ گھٹا کر ان کے مستقبل کو ایف بی آر کے ایک ایسے افسر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا جو پوری طرح ایگزیکٹو کے کنٹرول میں تھا اور ایک ایسا ایگزیکٹو جو انہیں ہٹانے کے درپے ہے۔ جسٹس عیسیٰ کہتے ہیں کہ عدلیہ کی خود مختاری کو ایگزیکٹو کو با اختیار بنانے کیلئے داو پر لگا دیا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید لکھا کہ عدلیہ کی آزادی کی ضمانت آئین پاکستان دیتا ہے اور ایسے عمل سے اسے سرنگوں نہیں کرنا چاہیے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس فیصلے کو عدلیہ کی آزادی کے منافی قرار دیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الزام عائد کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے اٹارنی جنرل سے خفیہ ملاقات کی جس میں اٹارنی جنرل نے سپریم جوڈیشل کونسل کے اراکین کو مجبور کیا کہ وہ مجھ سے افسانوی اصطلاحوں، منی ٹریل، اور فنڈز کے ذرائع پر جواب طلب کریں جب کہ قانوناً ان اصطلاحوں کا کوئی جواز نہیں۔ انہوں نے لکھا کہ ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ ان کے زیر کفالت نہیں تھیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو لگتا ہے کہ قانونی تناظر میں ان کے خلاف درخواست سپریم جوڈیشل کونسل کی ابتدائی سماعت میں ہی خارج ہو جانی چاہیے تھی۔ لیکن مصنوعی دلائل سے کیس کو زندہ رکھا گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ شاید سپریم جوڈیشل کونسل کو یہ نظر نہیں آیا کہ ان کا کام فیصلہ سنانا ہے نہ کہ استغاثہ کا کردار ادا کرنا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ کی اتحادی حکومتوں نے فیض آباد دھرنا کیس کی وجہ سے انتقام کا نشانہ بنایا جو انتہائی بد نیتی پر مبنی اقدام ہے۔ اپنے ان دلائل کو مزید سپورٹ کرنے کے لئے انہوں نے حکومتی جماعت پی ٹی آئی اور متحدہ قومی موومنٹ کی فیض آباد دھرنا فیصلہ کے خلاف ابتدائی نظر ثانی اپیل کے مسودے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہیں مس کنڈکٹ کا مرتکب قرار دیا گیا تھا۔ بعد ازاں رجسٹرار سپریم کورٹ کی اپیل میں استعمال کی گئی زبان پر اعتراض کرنے کے بعد اس مسودے کو واپس لے کر نظر ثانی کی ترمیم شدہ اپیل دائر کی گئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے فیصلے میں اٹارنی جنرل کے دلائل پر اطمینان کا اظہار کیا لیکن ان دلائل کے جوابات کا کہیں ذکر نہیں کیا گیا جن سے سپریم جوڈیشل کونسل کے اراکین مطمئن ہوئے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے ان کا مؤقف سننے کی کبھی زحمت نہیں کی اور ان کو سنے بغیر ہی تاریکی میں کارروائی چلائی گئی۔ ان کے پیٹھ پیچھے چلائی گئی کارروائی جانبدار، غیر شفاف، انصاف کے اصولوں کے منافی اور بدنیتی پر مبنی تھی۔
جسٹس عیسیٰ نے اس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے کنڈکٹ پر سوال اٹھاتے ہوئے لکھا کہ انہوں نے اپنی ذات کو مطمئن کرنے کے لئے 19 اگست کو ایک فیصلہ لکھتے ہوئے کہا کہ انہوں نے مجھے ریفرنس کی کاپی اس لئے مہیا نہیں کی کیونکہ وہ سپریم جوڈیشل کونسل کیلئے تھی۔ انہوں نے اس پر حیرت کا اظہار کیا کہ اگر واقعی ایسا تھا تو مجھے بلا کر ریفرنس کی کاپی دکھانے کا بھی کوئی جواز نہیں تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ عمران خان کی حکومت کے کئی عہدے داروں کی بیرون ملک جائیدادیں ہیں، علم نہیں کہ انہوں نے جائیدادوں کو پاکستان میں اپنے ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر کیا یا نہیں، ان عہدیداروں میں سید ذوالفقار عباس بخاری، شہزاد اکبر، یار محمد رند، ندیم بابر، عاصم سلیم باجوہ، شہباز گل، فیصل واوڈا اور عثمان ڈار شامل ہیں۔ نہوں نے اپنی درخواست میں بتایا کہ ذوالفقار عباس بخاری کی 45 ولنگٹن روڈ لندن میں فلیٹ نمبر 3 جائیداد ہے، یار محمد رند کی سپرنگ ریذیڈنشل ولا اور انٹرنیشنل سٹی دبئی میں جائیداد ہے، ندیم بابر کا ہیوسٹن امریکا میں گھر ہے، شہباز گل کا امریکا میں گھر ہے۔
ان کا یہ بھی بتانا تھا کہ عاصم سیلم باجوہ کی اہلیہ کی امریکا میں 13 کمرشل اور 5 رہائشی جائیدادیں ہیں، فیصل واوڈا کی بیرون ملک 9 جائیدادیں ہیں، فیصل واوڈا کی لندن میں 7، ملائشیا اور دبئی میں ایک ایک جائیداد ہے جب کہ عثمان ڈار کی برطانیہ کے شہر برمنگھم میں جائیداد ہے، شہزاد اکبر کی لندن میں جائیداد ہے اور ان کی اہلیہ کا سپین میں ایک فلیٹ ہے۔
اپنی درخواست میں قاضی فائز عیسیٰ نے مطالبہ کیا کہ جسٹس یحیٰی آفریدی کے فیصلے کی روشنی میں میری درخواست کو قابل سماعت قرار دیا جائے، جسٹس مقبول باقر، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحیٰی آفریدی کو بھی بینچ کا حصہ بنایا جائے، اور درخواست کی سماعت ٹی وی پر لائیو نشر کرنے کا حکم دیا جائے۔
اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے دائر نظر ثانی کی درخواست سماعت کے لئے مقرر کر لی گئی ہے۔