اب تو یہ بھی کوئی خبر نہیں کہ عمران خان جنرل فیض کو آرمی چیف بنانا چاہتے تھے لیکن وہ ساتھ ساتھ جنرل فیض کو آئی ایس آئی سے بھی تبدیل نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اسی لیے پاک فوج کو ایسی تجاویز بھی دی گئیں کہ انٹیلی جنس کو بھی ایک کور کا درجہ دے دیا جائے جس کے بعد چیف بننے کے لیے جنرل فیض کے کور کمان کرنے کی شرط نہیں رہے گی۔ لیکن پاک فوج عمران خان کا یہ فارمولہ نہیں مانی۔ عمران خان کو آج بھی دکھ ہے کہ وہ جنرل فیض کو ڈی جی آئی ایس آئی سے تبدیل ہونے سے نہیں روک سکے اگر روک لیتے تو عدم اعتماد نہیں ہوتی۔ انہیں اب یہ بھی دکھ ہے کہ وہ جنرل فیض کو آرمی چیف نہیں بنا سکے۔
سب کہتے ہیں کہ پی ڈی ایم کو عدم اعتماد نہیں لانی چاہئیے تھی۔ عمران خان کی مقبولیت ختم ہو رہی تھی وہ خود ہی گر رہے تھے۔ پہلے پہلے نواز شریف بھی عدم اعتماد لانے کے خلاف تھے۔ ان کا مؤقف تھا کہ عمران خان کو اس کی سیاسی موت مرنے دیا جائے۔ لیکن پھر جیسے جیسے جنرل فیض کے چیف بننے کے دن قریب آتے گئے، پی ڈی ایم عدم اعتماد لانے پر مجبور ہو گئی۔ میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ عدم اعتماد عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کے لیے نہیں تھی، یہ عدم اعتماد جنرل فیض کو چیف بننے سے روکنے کے لیے تھی۔ پی ڈی ایم کی تمام سیاسی قیادت جنرل فیض کو چیف بننے سے روکنے کے یک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہوئی۔ یہ اتحاد بھی عمران خان کے خلاف نہیں تھا بلکہ جنرل فیض کے خلاف تھا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ پوری پی ڈی ایم جنرل فیض کے خلاف اکٹھی کیوں ہوئی؟ کیوں جنرل فیض کو چیف بننے سے روکنے کے لیے سب نے اپنا سیاسی مستقبل داؤ پر لگا دیا؟ کیوں ملک کی سیاسی قیادت جنرل فیض سے اس قدر خوفزدہ تھی کہ ان کو روکنے کے لیے سب کچھ داؤ پر لگا دیا؟ کیا یہ صرف اس لیے تھا کہ وہ عمران خان کا امیدوار تھا؟ ماضی میں بھی جس نے چیف لگایا ہے ضروری نہیں وہ اس کا وفادار رہا ہے اس لیے فیض کا اس قدر خوف کیوں؟
عمران خان سے ان کے دور وزارت عظمیٰ میں جب ان کے غیر مقبول ہونے پر سوال کیا جاتا تو وہ کہتے، اگلے الیکشن کا سکرپٹ تیار ہے۔ وہ کہتے تھے کہ جب فیض چیف بن جائیں گے تو اپوزیشن کے تمام رہنماؤں کو تین سے چھ ماہ میں سزائیں ہو جائیں گی۔ یہ سب نا اہل ہو جائیں گے۔ میں اکیلا ہی میدان میں ہوں گا۔ میرا نعرہ ہوگا سب کو سزائیں ہو گئیں۔ احتساب مکمل ہو گیا۔ اب اگلے پانچ سال معاشی ترقی کے ہوں گے۔ احتساب کے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں تھی۔ اس لیے پہلے پانچ سال میں احتساب مکمل کیا گیا۔ اس لیے پی ڈی ایم کی سیاسی قیادت کو یہ یقین ہو گیا تھا کہ سیاسی بقا کے لیے عدم اعتماد لانا اور جنرل فیض کو چیف بننے سے روکنا ناگزیر ہے۔
عدم اعتماد کے موقع پر جنرل فیض کو یہ اندازہ تھا کہ یہ عدم اعتماد صرف عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے نکالنے کے لیے نہیں ہے بلکہ ان کو آرمی چیف بننے سے روکنے کے لیے بھی ہے۔ اسی لیے جب عدم اعتماد لانے کا عمل شروع ہوا تو جنرل فیض نے بار بار لندن نواز شریف سے رابطہ کیا کہ ان کو چیف بننے دیا جائے۔ جب اسحاق ڈار لندن تھے تو انہیں راتوں کو گھنٹوں فون کرتے تھے اور انہیں نواز شریف کو سمجھانے کو کہتے تھے۔ وہ ان کے خلاف کچھ نہیں کریں گے لیکن جنرل فیض نے عمران خان کے لیے ملک کی دیگر سیاسی قیادت کو اتنے دھوکے دیے تھے کہ اب ان پر کوئی اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔
جنرل فیض نے چیف بننے کی کوششیں آخری دم تک جاری رکھیں۔ شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد بھی وہ اس کوشش میں رہے۔ وہ بار بار یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے رہے کہ انہیں ایک موقع دیا جائے۔ انہوں نے وزیر اعظم شہباز شریف کو بھی متعدد پیغام بھیجے۔ لندن بھی پیغام بھیجے۔ زرداری کو بھی پیغام بھیجے۔ لیکن اب ان پر کوئی اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ جنرل فیض بھی جنرل باجوہ کی طرح پوری ڈبل گیم کھیل رہے تھے۔
اگر دیکھا جائے تو شاید عمران خان تو ملک کے دوبارہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں لیکن جنرل فیض دوبارہ آرمی چیف نہیں بن سکتے۔ سب سے زیادہ نقصان جنرل فیض کا ہو گیا ہے۔ وہ ملک کے پکے چیف تھے لیکن ان کے تمام منصوبے ناکام ہو گئے۔ عمران خان کو سڑکوں پر جلد انتخابات کے لیے بھی جنرل فیض ہی نے رکھا ہوا تھا۔ وہ اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے انتخابات چاہتے تھے۔ عمران خان کی جانب سے جنرل باجوہ کو چھ ماہ کی توسیع کا فارمولہ بھی جنرل فیض کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے ہی تھا۔ سارا طوفان جنرل فیض کے لیے تھا۔ اب جب جنرل فیض ریٹائر ہو گئے ہیں تو طوفان بھی تھمتا نظر آرہا ہے۔ عمران خان کے جن کا بوتل میں واپس جانے کا عمل شروع ہوتا نظر آ رہا ہے۔