میرا یہ خیال اور یقین ہے کہ اب نوجوانوں کو قوم کی رہنمائی اور قیادت فراہم کرنی ہے۔ میں عمران خان کی حکومت کا شکر گزار ہوں کہ اس کی پنجاب پولیس نے مجھے گرفتار کر کے عزت بخشی اور جنم دن کا بہترین تحفہ دیا۔ میں پولیس کے انسانیت سوز رویہ کا گلا اس لئے نہیں کرتا کیونکہ میں نے کبھی بھی ایسے دوستوں سے اتفاق نہیں کیا جو سمجھتے ہیں کہ ہماری پولیس عوام، انسان دوست اور مہذب ہو سکتی ہے۔ وہ ہر پاکستانی کو مجرم اور اگر وہ سیاسی اور انسانی حقوق کا شعور رکھتا ہو تو اسے غدار اور وطن دشمن سمجھتی ہے۔
اس کی ایک اور وجہ بھی ہے کہ جس دور میں ہم جوان ہوئے وہ فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کا دور تھا۔ یہ دور بہت ہی جبر و ستم کا دور تھا۔ اس دور میں عوام کو کسی قسم کے بنیادی حقوق حاصل نہیں تھے۔ اسی دور میں بائیں بازو کے سیاسی رہنما حسن ناصر کو لاہور کے شاہی قلعہ میں تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ پنجاب اسمبلی کے رکن باقی بلوچ کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی مگر ایک صحافی مارا گیا۔ لاہور میں جماعت اسلامی کے جلسہ پر فائرنگ کی گئی جس میں کچھ لوگ مارے گئے۔ جماعت اسلامی پر پابندی لگا دی گئی۔ جنرل ایوب نے آتے ہی ترقی پسند اور عوام دوست اخبارات کو قومی تحویل میں لے لیا، پریس کو کنٹرول کرنے کے لئے پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس جاری کیا۔
میرا مقصد یہاں پر کوئی پہلے مارشل لا کی تاریخ بیان کرنا نہیں، یہ صرف اس لئے دھرا رہا ہوں تاکہ آج کے نوجوانوں کو کچھ پتہ چلے کہ پاکستان میں آج جو ظلم ستم ہو رہا ہے وہ کوئی نیا نہیں ہے اور ہمارے بزرگوں نے اس سے بھی بدتر حالات میں عوامی حقوق میں جدوجہد کی ہے۔
جنرل ایوب خان کے جبر کی بات ایک واقعہ بیان کر کے ختم کرتا ہوں۔ میں پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے پولیٹیکل سائنس کا طالب علم تھا۔ عطا الحق قاسمی میرا دوست ایم اے اردو کا طالب علم تھا اور نوائے وقت میں کام کرتا تھا اس نے میرے نام سے ایک خبر لگا دی۔ وہ خبر ہمارے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ محترم استاد پروفیسر انوار سید کے پاس آ گئی کہ اس لڑکے کو نکال دیا جائے۔ پروفیسر انوار نے جواب دیا کہ اس لڑکے نے ڈیپارٹمنٹ کے ڈسپلن کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی۔
2 فروری کو عوامی ورکرز پارٹی فیصل آباد نے پاکستان بھر میں گرفتار سیاسی اور سماجی کارکنوں خاص کر پی ٹی ایم کے منظور پشتین کی گرفتاری پر فیصل آباد پریس کلب کے باہر پر امن احتجاج رکھا، میں جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ہر طرف پولیس ہی پولیس ہے اور میری بیوی امینہ زمان کو پولیس نے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے۔ اتنی دیر میں پولیس کے سپاہی میری طرف آئے اور مجھے کہا کہ ہمارے ایس ایچ او کا حکم ہے کہ تم اس پولیس کی گاڑی میں بیٹھ جاو۔ میں نے پوچھا کہ میرا جرم کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں نہیں معلوم افسر کا حکم ہے۔ اگر تم خود نہیں بیٹھ سکتے تو ہم اٹھا کر بٹھا دیں گے۔ میں نے جواب دیا کہ ابھی مجھ میں ہمت ہے، میں خود بیٹھ جاتا ہوں۔ جب پولیس کی گاڑی چلی تو میں نے دیکھا کہ پولیس میری بیوی کو گرفتار کر کے لے جا رہی ہے۔ مجھے تھانہ ریل بازار لے جایا گیا اور ایک چھوٹے سے کمرے میں بند کر دیا گیا جس میں پہلے ہی عوامی ورکرز پارٹی کے کارکن بند تھے۔ باہر سے اس کمرے کو تالہ لگا دیا گیا کہ دہشتگرد اور غدار بھاگ نہ جائیں۔ تھانہ میں داخل ہوتے ہی میرا موبائل فون لے لیا گیا تھا۔ چند گھنٹوں بعد ہمیں کہا گیا کہ آپ جا سکتے ہیں مگر آپ کے فون فارنزک آڈٹ کے بعد واپس کئے جائیں گے۔
اب تھوڑی سی بات اسلام آباد میں گرفتار دوستوں کے بارے میں بھی ہو جائے۔ جن پر دہشت گردی کی دفعات لگائی گئیں اور سیشن جج نے ضمانت بعد از گرفتاری مسترد کرتے ہوئے لکھا کہ ان ملزمان کے خلاف غداری کی دفعہ بھی لگنی چاہیے، شکر ہے اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت لے لی ہے اور پولیس سے پوچھا ہے کہ ان لوگوں نے پر امن مظاہرہ کر کے کون سا جرم کیا ہے کہ ان کے خلاف غداری اور دہشت گردی کا پرچہ دیا جائے۔
ہماری گرفتاری کی خبر نہ تو پرنٹ اور نہ ہی مقامی الیکڑانک میڈیا نے دی۔ غالباً یہ ہائی بریڈ ففتھ جنریشن وار کا حصہ ہے، مگر کیا کیا جائے جو ایک مقامی خبر تھی وہ ساری دنیا کے سوشل میڈیا کی خبر بن گئی۔ میں شکر گزار ہوں انتظامیہ کا اس جنم دن کے بہترین تحفہ کے لئے اور یہ احساس دلوانے کا کہ، ابھی تو تم جوان ہو۔ مزید مجھے اور میری شریک حیات امینہ زمان کو ایک ہی وقت پس دیوار زنداں رکھ کر تاریخ رقم کرنے کا۔