'فائزعیسیٰ کیس میں عدالتی فیصلہ بالکل درست ہے' سینیٹر علی ظفر نے فیصلے کی حمایت کردی

06:40 AM, 5 Feb, 2022

نیا دور
سینیٹر علی ظفر نے جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی حمایت کر دی۔

پاکستان تحریک انصاف کےرہنما سینیٹرعلی ظفر جسٹس نے کہا ہے کہ فائزعیسیٰ کیس میں عدالتی فیصلہ بالکل درست ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے یہ نہیں کہا کہ ججز اور ان کےاہل خانہ کااحتساب نہیں ہوسکتا بلکہ واضح کیاہےکہ ججز اور ان کے اہل خانہ کے خلاف بھیFBRقانون کےمطابق عام شہریوں کیطرح کارروائی کرسکتاہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر نے جیو نیوز کے پروگرام 'آج شاہ زیب خانزدارہ کے ساتھ' میں گفتگو کرتے ہوئے حکومتی سینیٹر نے کہا کہ اس کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ عدالت نے یہ نہیں کہا کہ ججوں اور ان کے اہلخانہ کا احتساب نہیں ہو سکتا بلکہ عدالت نے واضح کیا ہے کہ ججز اور ان کے اہلخانہ کے خلاف بھی ایف بی آر قانون کے مطابق شہریوں کی طرح کارروائی ہو سکتی ہے۔ اگر شواہد سے تعلق ثابت ہو جائے تو جج کے خلاف بھی کارروائی ہو سکتی ہے۔

سینیٹر علی ظفر نے بتایا کہ دو قسم کے قوانین ہیں، ایک قانون ہر شہری پر لاگو ہوتا ہے اور ایک پارلیمنٹیرینز پر لاگو ہوتا ہے۔ پارلیمینٹر پر قانون لاگو ہوتا ہے کہ وہ کاغذات نامزدگی جمع کرواتے وقت اپنے اور اپنے اہل خانہ کے اثاثے جمع کروائیں، اگر انہوں نے اثاثوں میں کوئی غلط بیانی کی ہو تو وہ نا اہل ہو سکتے ہیں۔ تاہم باقی شہریوں جن میں ججز بھی شامل ہیں ان پر ایسی کوئی پابندی یا ذمہ داری نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ایسا کوئی قانون نہیں کہ ججز اپنی بیوی اور بچوں کے اثاثے کو جمع کروائیں یا اس کے لیے جوابدہ ہوں۔ فیصلے میں یہی لکھا ہے کہ اگر مستقبل میں کوئی ایسا قانون بنایا گیا کہ ججز کو اپنے اہل خانہ کے اثاثہ جات کی تفصیلات جمع کروانے ہیں تو پھر ان کے خلاف غلط بیانی کی صورت میں کاروائی ہو سکتی ہے، لیکن اگر کوئی ایسا قانون نہیں تو ججز کو اپنے اہل خانہ میں سے کسی کے اثاثے جمع کروانے یا ان کی ذمہ داری کی کوئی پابندی نہیں ہے۔

سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ سمجھتی ہے کہ جو قانون ارکان پارلیمان پر لاگو ہوتا ہے وہی ججوں پر بھی لاگو ہو تو پارلیمنٹ اس کے لیے قانون بنا دے۔

https://twitter.com/shazbkhanzdaGEO/status/1489664978927992833

خیال رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی نظرثانی کیس کا تحریری فیصلہ جاری کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے مختصر فیصلہ 26 اپریل 2021 کو سنایا تھا، عدالت نے 9 ماہ 2 دن بعد نظرثانی درخواستوں کا تحریری فیصلہ جاری کیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ اگر کوئی شہری عوامی عہدہ رکھتا ہے تو اسے بھی قانون کا تحفظ حاصل ہے،ہر شہری اپنی زندگی، آزادی، ساکھ، جائیداد سے متعلق قانون کے مطابق سلوک کا حق رکھتا ہے۔ جسٹس یحیٰی آفریدی کا اضافی نوٹ بھی فیصلے کا حصہ ہے، فیصلہ جسٹس مقبول باقر جسٹس مظہر عالم ،جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس امین الدین نے تحریر کیا۔ دس رکنی لارجر بینچ نے 6 چار کے تناسب سے سرینا عیسٰی کے حق میں فیصلہ سنایا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے لارجر بنچ کے جاری کردہ تحری فیصلے میں کہا گیا کہ اہلیہ سرینا عیسٰی کی نظرثانی درخواستیں اکثریت سے منظور کی جاتی ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ اس عدالت کے جج سمیت کوئی قانون سے بالاتر نہیں، کوئی بھی شخص چاہے وہ اس عدالت کاجج کیوں نہ ہو اس کو قانونی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا، ہر شہری اپنی زندگی، آزادی، ساکھ، جائیداد سے متعلق قانون کے مطابق سلوک کا حق رکھتا ہے، آئین کے آرٹیکل 9 سے 28 تک ہر شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتے ہیں، اگر کوئی شہری عوامی عہدہ رکھتا ہے تو اسے بھی قانون کا تحفظ حاصل ہے، قطع نظر کسی عہدہ یا پوزیشن کے ہر پاکستانی شہری قانون کے مطابق سلوک کا حقدار ہے۔
مزیدخبریں