جب فیصلہ ساز ایک سے زیادہ ہوں تو واقعات کی ترتیب آگے پیچھے ہو سکتی ہے۔ PTI، PMLN، PPP اور JUIF چاروں اگلے راؤنڈ کی تیاری کرتے ہوئے یہ بات جانتے ہیں کہ اب ہار ہوگی یا جیت، ڈرا کا امکان نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ منصوبہ ساز ہر قدم پھونک پھونک کر رکھ رہے ہیں۔ وہ جلد بازی بھی کر سکتے ہیں۔ ایسے حالات میں ایسی غلطیاں عین ممکن ہیں جن کے بارے میں پہلے سے منصوبہ بندی نہیں کی جا سکتی۔ آج کے تپے ہوئے سیاسی ماحول میں کوئی سیاسی کھلاڑی غلطی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ لیکن غلطی نہ کرنا بھی ممکن نہیں۔ کچھ تو ہونا ہے۔
اسی لئے اگلے 60 دن اہم ہیں۔ رمضان کا مقدس مہینہ اپریل کے پہلے ہفتے میں شروع ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سیاسی جنگ کے خاتمے کا بھی وقت ہو جائے گا۔ رمضان ایک وقفہ مہیا کرے گا جس سے یا تو اس لڑائی کا زور ٹوٹ جائے گا یا پھر دونوں جانب سے اگلے معرکے کے لئے مزید زور و شور سے کوشش شروع کر دی جائے گی۔
لیکن سب سے پہلے تو طے شدہ ٹائم ٹیبل ہے۔ PTI اور PPP اس ماہ کے آخر میں لانگ مارچز کے لئے اپنی اپنی سیاسی قوت کو متحرک کر رہی ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری اس ماہ کے آخر میں کراچی سے اپنی پارٹی کا مارچ شروع کریں گے اور اسے سندھ سے پنجاب کی طرف لے کر آگے بڑھیں گے۔ PTI سندھ کے صدر علی زیدی گھوٹکی سے اسی وقت کراچی کی طرف عوامی جلوس لے کر نکلیں گے۔ ان کا مقصد PPP کی PTI حکومت کے خلاف مہم کا توڑ کرنا ہے۔ ان دونوں مہمات سے متعلق تفصیلات اگلے چند دنوں میں سامنے آنا شروع ہو جائیں گی اور 24 گھنٹے خبروں کا حصہ ہوں گی۔
یہ میدان ایک ایسے موقع پر سجنے جا رہے ہیں جب پارلیمان کے اندر کی کارروائی ٹھنڈی پڑ رہی ہے۔ منی بجٹ کی گہما گہمی ختم ہو چکی ہے اور ساتھ ہی دونوں ایوانوں میں اس دوران حکومت کے خلاف کسی بغاوت کا خوف بھی۔ کچھ نہیں ہو رہا۔ ایسا کوئی اشارہ نہیں مل رہا جس سے لگے کہ یہ مسئلہ اس ماہ دوبارہ سر اٹھائے گا۔ چھوٹے موٹے جھگڑوں کے سوا کسی اہم قانون سازی یا قومی اسمبلی و سینیٹ میں کسی ممکنہ تنازع کے امکان کی غیر موجودگی میں تمام تر توجہ لانگ مارچز کی جنگ پر موکوز ہوگی۔ ٹی وی سکرینوں پر بہت سے 'split screen' مواد کے لئے تیار ہو جائیے۔
نیوز رومز کے مینیجرز کے لئے دونوں اطراف سے دباؤ برداشت کرنے کا مرحلہ مشکل ہوگا۔ جب ایک ہی وقت میں متعدد سیاسی جماعتوں کی خبریں آ رہی ہوں تو نیوز روم مینیجرز کے لئے مشکل ہو جاتا ہے کہ کس کو براہ راست دکھائیں، کس کو پوری سکرین پر لائیں، کس کو آدھی، کس کی آواز کھولیں، کس کی بند کریں، کب کٹ کر کے کیمرا کہیں اور لے جائیں، اور ہاں، یہ سب کرنے کی وجہ کیا ہو۔ یہ فیصلے کٹھن ہوتے ہیں جب وزارتِ اطلاعات، پیمرا، متعدد مشیران، پارٹیوں کے سیکرٹری اطلاعات اور، یقیناً، چینل مالکان مسلسل نیوز روم کے سربراہان کو کالز کر رہے ہوں۔ یہ صورتحال بہت ہی پریشان کن ہوتی ہے کیونکہ سیاسی اور میڈیائی مفادات ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہوتے ہیں اور اس کا ملبہ نیوز روم میں کام کرنے والے پروفیشنلز پر گر رہا ہوتا ہے۔ ایسا ہی کچھ ہوگا جب PPP اور PTI اپنے اپنے لانگ مارچ پر ایک ہی روٹ پر نکلیں گی۔ میڈیا کے لئے دہری مصیبت یہ ہوگی کہ یہ دونوں جماعتیں حکومتیں بھی کر رہی ہیں، لہٰذا اپنا سرکاری حجم بھی بہتر کوریج کے لئے استعمال کر سکتی ہیں۔
اس جنگ کا پہلا مرحلہ ان لانگ مارچز سے پہلے ان کی تیاریوں کے دوران شروع ہو جائے گا۔ دوسرا مرحلہ وہ ہوگا جب بڑی تعداد میں دونوں جانب سے مارچ ایک دوسرے کی سمت میں سندھ کے شہروں اور دیہاتوں سے آگے بڑھیں گے۔ اس مرحلے میں یہ خطرہ بالکل موجود ہے کہ کسی تصادم یا تشدد کے واقعے کے باعث صورتحال خراب ہو جائے۔ یاد رکھیے، سندھ میں پولیس PTI سے نبرد آزما ہوگی۔ پنجاب میں پولیس PPP کے سامنے ہوگی۔ ہر عمل کا ایک بالکل برابر اور متضاد رد عمل ہو سکتا ہے۔
تیسرا مرحلہ تب شروع ہوگا جب PTI کا لانگ مارچ کراچی اور پیپلز پارٹی کا اسلام آباد پہنچ جائے گا۔ پھر وہ کیا کریں گے؟ کیا بلاول ہاؤس کے باہر کراچی میں یا اسلام آباد میں ڈی چوک پر دھرنا ہوگا؟ یہ متوازی پیش آتے واقعات جذبات کو انگیختہ کریں گے اور حرارت پیدا کریں گے جس سے دونوں جماعتوں کی calculation میں ان کے کارکنان چارج ہوں گے۔ چوتھا مرحلہ ان مارچز کے اختتام کا ہوگا اور جن شرائط پر یہ اختتام ہوگا۔ بہت کچھ ہے جو ان چار مرحلوں میں حالات کو خرابی کی سمت لے جا سکتا ہے۔
اور جب یہ مارچ ختم ہو رہا ہوگا، PDM کا شروع ہو رہا ہوگا۔ جمعیت اور ن لیگ کے اس اتحاد نے 23 مارچ کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس مارچ کے بارے میں بھی بہت سا ابہام ہے، مقاصد کے حوالے سے بھی اور متوقع نتائج کے حوالے سے بھی۔ PDM کے مارچ کو جو بھی حاصل کرنا ہے اس کے لئے اس کے پاس وقت انتہائی کم ہوگا کیونکہ اپریل کے پہلے ہفتے میں رمضان شروع ہونے جا رہے ہیں۔ یعنی اسے اپنے مقاصد پہلے 10 دن کے اندر اندر حاصل کرنا ہوں گے۔ بہت سی میڈیا کوریج کے علاوہ بھی کچھ ہے جو PDM حاصل کر پائے گی؟ ان 60 دنوں میں پیش آنے والے واقعات اگلے 60 دنوں کے لئے ماحول بنائیں گے۔ رمضان کا مبارک مہینہ سب کو سانس لینے کا موقع فراہم کرے گا اور پھر بلدیاتی انتخابات سے ایک نئے راؤنڈ کا آغاز ہوگا۔
مارچ 27 کو ہونے والا خیبر پختونخوا بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کا انعقاد شاید موسمی حالات کے پیشِ نظر رمضان کے بعد تک کے لئے مؤخر کر دیا جائے۔ اگر PTI خیبر پختونخوا کے دوسرے مرحلے میں بھی شکست کھا گئی، اور پنجاب میں بھی جہاں اس کی مقبولیت کو بڑا دھکا لگا ہے، تو لانگ مارچز میں بچ جانے کے باوجود اس کی پوزیشن انتہائی کمزور ہو جائے گی۔ حکمراں جماعت کا عام انتخابات تک کا سفر اور بھی دشوار گزار ہو جائے گا۔
اگلے 60 روز، اور پھر اس سے اگلے 60 روز، اچھا خاصہ تماشہ لگے گا۔ تیاری پکڑ لیں۔
فہد حسین کا یہ مضمون ڈان اخبار میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لئے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔