خدا خود فرماتا ہے کہ جب میں اپنے کسی بندے پر راضی ہوتا ہوں تو بارش کی بوندوں سے نوازتا ہوں۔ جب میں اور مہربان ہوتا ہوں اپنے کسی بندے سے تو اس کے گھر کی دستک مہمانوں سے کھٹکھٹا کر اسے اپنے بندوں کی خدمت کا موقعہ اس مہربان بندے کو دیتا ہوں۔ اور جب میں اپنے کسی بندے سے مزید راضی ہوتا ہوں تو بیٹی کی رحمت سے مالا مال کر دیتا ہوں۔ خدا کی رحمتوں کا موازنہ کریں تو بارش رحمت، مہمان زیادہ رحمت اور بیٹی سب سے ذیادہ رحمت والی ہے۔
اب ایک نظر اس معاشرے کی بے وجہ رسومات پر ڈالیں تو وہ باپ جس پر اللہ تعالیٰ مہربان ہو کر اور اسے خوش ہو کر بیٹی دیتا ہے وہ آزمائش بن جاتی ہے۔ بیٹی کے پیدا ہوتے ہی تشویش، ہر گزرتے دن اس میں توسیع۔ ننھی جانیں آنگن میں کھیلتے کھیلتے، اپنی نادانیوں میں مگن کب سامنے بیٹھے ماں باپ کے لئے پریشانیوں کا سبب بن جاتی ہیں پتہ ہی نہیں چلتا۔
ان کی تشویش بے وجہ نہیں، معاشرے کی بے وجہ رسومات میں سے جہیز دینا ایک اچھی خاصی تشویش کا عالم ہوتا ہے۔ دن کا تھکا ہارا باپ، شام میں بیٹی کی ننھی ننھی خواہشات پوری کرتے کرتے سانس نہیں لیتا کہ آنے والے دنوں میں بیٹی کے ہونے والے سسرال کی بڑی بڑی فرمائشوں کا بھی سامنا کرنے کے لئے خود کو تیار کر رہا ہوتا ہے۔جہیز دینا ایک رسم بن گئی ہے اور یہ رسم جو اچھے سے نبھائے وہ اس کا غلام اور جو نہ نبھا پائے ان کی جوان بیٹیاں بوڑھی ہو جاتی ہیں مگر کوئی ان کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔
رسم کیا ہوتی ہے؟
وہ عمل جو کئی دہائیوں سے چلتا آ رہا ہو۔
رسم بناتا کون ہے؟
کسی نے کوئی عمل نام کے لئے کیا تو کسی نے اپنی پہچان بنانے کے لئے، یوں ہی یہ سلسلہ بڑھتا گیا اور اس عمل کو سب عمل میں لاتے لاتے اسے معاشرے میں ایک رسم کی جگہ دے دیتے ہیں۔
معاشرے کی انہی رسومات کی وجہ سے ایک باپ کے لئے بیٹی زحمت بن جاتی ہے اور کوئی کوئی تو ان سے جان چھڑاتے کتراتا نہیں۔
حیرت کی بات ہے کہ ایک انسان سے زیادہ بے جان چیزوں کی اہمیت ہے۔ بھاری بھرکم زیور، بیش قیمت لباس اور عالیشان مکان اگر جہیز میں لے آئے تو اس کی خوب عزت ہوگی۔ اور جو ان کی خواہشات پر پورا نہ اترے تو؟
اکیسویں صدی میں رہنے والے لوگ بھی اب تک اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اپنے گھر میں سکون کے بجائے ہر روز اس لڑکی کے لئے ایک نیا طوفان کھڑا کر دیتے ہیں۔ ذہنی اور جسمانی اتیاچار سے ان کے ہاتھ بالکل بھی نہیں کتراتے۔ تب تک ان کا تشدد و اذیت ختم نہیں ہوتی جب تک ان کے غیر معقول مطالبات پورے نہیں کیے جاتے۔
اس اذیت کا خاتمہ کوئی مجبوری میں اپنا گلا گونڈ کر بھی کرتی ہے اور کوئی رو رو کر اپنے ماں باپ سے ان کی نامعقول مطالبات پورے کرائے بنا سکھ کا سانس نہیں لے پاتی۔ جو والدین پہلے اپنی بیٹی کی تعلیم کے اخراجات برداشت کرتے، پھر شادی کی مختلف رسومات میں، جہیز میں اور شادی کے بعد بھی ان کی بے وجہ فرمائشیں!
اس درد بھری داستان کا خاتمہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جن لوگوں نے اس رسم کی ابتدا ڈالی ہے۔ آئیے سب مل کر اس مہم کو مزید روشن کریں اور لوگوں کو جہیز جیسی لعنت کے متعلق آگاہی دیں۔ جہیز خوری بند کریں۔