دفتر سے اپنے فلیٹ کے سفر کے دوران میرے ذہن میں کئی سوالات نے جنم لیا کہ آخر سلمان تاثیر شہید مرحوم نے ایسا کیا کہہ دیا تھا کہ ان کے اپنے ہی سیکورٹی گارڈ ممتاز قادری نے اتنی بیدردی سے ان کو قتل کر دیا تھا۔ انھوں نے بس ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی کے لیے آواز اٹھائی تھی جس کو توہین ِ مذہب کے جھوٹے الزام میں موت کی سزا دی گئی تھی۔ جس کو بعد میں سپریم کورٹ کے فیصلے میں تمام الزامات غلط ثابت ہونے پر رہا کر دیا گیا۔
اس وقت جب میرے جیسا کوئی بندہ یہ کہتا تھا کہ سلمان تاثیر صاحب نے صرف یہ بات کی تھی کہ مذہب کی توہین جتنا بڑا جرم ہے اتنا ہی بڑا جرم توہینِ مذہب کا کسی پر غلط الزام لگانا ہے۔ اور غلط الزام لگانے والے کو بھی وہی سزا ملنی چاہیے جو توہینِ مذہب کرنے والے کے لیے آئین میں درج ہے تاکہ اس کا غلط استعمال روکا جا سکے تو آگے سے کافر ہونے کے فتوے سننے کو ملتے تھے اور یہ کہا جاتا تھا کہ اس پر آپ بات نہ کریں ورنہ آپ کا حال بھی سلمان تاثیر جیسا ہی ہو گا۔
https://nayadaur.tv/2020/01/salmaan-taseers-murder-and-the-rise-of-tlp/
تب ایسے ہی لوگوں کی طرف سے ممتاز قادری کو ہیرو بنایا گیا۔ اس کو ہار پہنائے گئے اس کا ماتھا چوما گیا۔ اس کے حق میں ریلیاں نکالی گئی۔ یہ سب اس سیاسی پارٹی کے دورِ حکومت میں ہو رہا تھا جو کہ روشن خیال نظریات کی حامل تھی۔ مگر خوف کا عالم تھا کہ اس پیپلز پارٹی کے وزیرِاعظم سے لیکر ایک بھی سیاسی لیڈر اپنے گورنر کےن احق اور بہیمانہ قتل کی کھل کر مذمت نہ کر سکا جس سے دکھ میں اور اضافہ ہوا۔
آج میرا ان سب لوگوں سے سوال ہے کہ جنہوں نے اس وقت ممتاز قادری کو ہیرو بنایا اور سلمان تاثیر صاحب کے قتل کو جائز سمجھا کہ آسیہ میسح کے سپریم کورٹ کے فیصلہ میں جج صاحبان کی طرف سے وہی سب باتیں نہیں کی گئیں جو سلمان تاثیر صاحب نے اس وقت کی تھیں۔ تو کیا ان سب میں تھوڑی سی بھی اخلاقی جرات ہے کہ اپنے اس رویے پر نادم ہی ہو جائیں۔مگر اس سماج میں ایسا رواج موجود ہی نہیں ہے۔
چلیے سپریم کورٹ کے فیصلے سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ تاثیر صاحب نے ایک بیگناہ انسان کی زندگی بچانے کےلیے اپنی جان دی۔ اور اس بے گناہ کی زندگی تو بچ گئی چاہے اسے باہر کے ملک جا کر پناہ لینی پڑی۔ مگر بہاوالدین زکریا یونیورسٹی کے بد نصیب پروفیسر جنید حفیظ کی جان کو ابھی بھی خطرہ ہے جن کوحال ہی میں 295 C کے تحت توہینِ مذہب کے الزام میں موت کی سزا سنائی جا چکی ہے۔ ان پر بھی آسیہ مسیح کی طرح جھوٹا الزام لگایا گیا ہے اور ان کے تو کیس کی پیروی کرنے والے وکیل راشد رحمان کو بھی انھیں مذہبی جنونیوں کی طرف سے قتل کر دیا گیا۔
توہینِ مذہب کے قانون کا زیادہ غلط استعمال اس وقت شروع ہوا جب ضیاءالحق کے دورِ حکومت میں 1985 میں اس قانون میں ترمیم کر کے اس میں سزائے موت کا اضافہ کیا گیا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1947 سے 1985 تک صرف 14 لوگوں کے خلاف اس قانون کے تحت مقدمات دائر کیے گیے جبکہ 1986 سے لیکر 2019 تک اس قانون کے تحت 1500 سے زائد لوگوں پر مقدمات قائم کیے گئے۔ جو کہ اپیلیں دائر کر کے جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ جنھیں ہجوم کی طرف سے مار دیا گیا جن میں مشعال خان اور دیگر کئی شامل ہیں ، وہ الگ سے ہیں۔ سپریم کورٹ کی طرف سے 2018 میں ایک شخص کو توہینِ مذہب کا الزام جھوٹا ثابت ہونے پر اٹھارہ سال بعد رہا کیا گیا ۔
اس سب سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سلمان تاثیر صاحب کا مشن ابھی ادھورا ہے۔ اور یہ تب ہی پورا ہو گا جب سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق توہینِ مذہب کے قانون میں تبدیلی کی جائے گی۔ اور اس کے غلط استعمال پر بھی سزا دی جا سکے گی۔ پھر ہی شاید اس ڈر سے بے گناہ لوگوں کو اس کی وجہ سے نہ پھنسایا جا سکے۔ ورنہ یہ سلسلہ تو ایسے ہی چلتا رہے گا۔
ہاں سلمان تاثیر صاحب کی نویں برسی پر ان کی یاد ضرور آ رہی ہے کہ اگر وہ حیات ہوتے تو ناصرف وہ اس مشن کو پورا کرنے کی کوشش کرتے بلکہ جس طرح آسیہ مسیح کے لیے انھوں نے آواز اٹھائی تھی ویسے ہی جنید حفیظ اور باقیوں کے لیے آواز بھی اٹھاتے۔ اور اگر ان کو کوئی کہتا کہ سلمان صاحب آپ کو اسی جنونی سماج سے ڈر نہیں لگتا تو جیسے آسیہ مسیح کے حوالے سے اس سوال کے جواب میں انھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں فیض صاحب کی نظم کے کچھ اشعار پڑھے تھے، آج بھی وہ یہ پڑھ دیتے۔
ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے
شہرِ جاناں میں اب با صفا کون ہے
دستِ قاتل کے شایان رہا کون ہے
رختِ دل باندھ لو ،دل فگارو چلو
پھر ہمیں قتل ہو آئیں،یارو چلو
آج بازار میں پا بجولاں چلو