اگر شہید سلمان تاثیر کی زندگی پر نظر دوڑائیں تو وہ ایک جمہوریت پسند، روشن خیال، ترقی پسند اور اعتدال پسند سیاستدان تھے، اُن کی تمام عمر انتہاپسندی اور تنگ نظری کے خلاف جدوجہد میں گزری۔
اُن کا گھرانہ ایک علمی ادبی گھرانہ تھا، اُن کے والد ڈاکٹر محمد دین تاثیر شاعر، ادیب اور دانشور تھے۔ ان کے والد وہ پہلے ہندوستانی تھے، جنہوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ڈاکٹریٹ ڈگری حاصل کی اور وہ لاہور کے مشہور اسلامیہ کالج کے پرنسپل رہے۔
یہی وہ علمی ادبی ماحول تھا جس میں سلمان تاثیر کی فکر پروان چڑھی، سیاسی طور پر وہ پیپلز پارٹی سے وابستہ رہے، وہ شہید بھٹو اور شہید بی بی کے جیالے تھے، انہوں نے 1980ء کی دہائی میں جنرل ضیاء کے ہاتھوں سابق وزیر اعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے اور پھر ان کی گرفتاری اور عدالتی قتل کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں انتہائی متحرک رہے اورقیدوبند کی صعوبتیں برداشت کئیں۔
پیپلز پارٹی سے وابستگی کی پاداش میں شہید سلمان تاثیر 16 بار گرفتار اور کئی بار نظر بند ہوئے۔ انہوں نے سن 1980 میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کی سوانح عمری بھی لکھی۔ 1988ء کے انتخابات میں وہ پی پی پی کے ٹکٹ پر لاہور سے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 1990ء میں ڈپٹی اپوزیشن لیڈر اور بعد ازاں قائد حزب اختلاف کے طور پر خدمات سر انجام دیتے رہے۔
شہید بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کی برطرفی کے بعد جب نواز شریف کی وفاق میں حکومت قائم ہوئی تو وہ حکومت مخالف پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ میں پیش پیش رہے اور گرفتار ہو کر جیل گئے۔ جہاں انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
https://www.youtube.com/watch?v=0R1Uam9T43E
ان کا شمار ایک کامیاب میڈیا اوںر اور کاروباری شخصیت کے طور پر بھی ہوتا ہے۔ انہوں نے 1995ء میں ”ورلڈ کال“ کی بنیاد رکھی جو اس وقت پاکستان میں ٹیلی کام کے نجی شعبے کی ایک اہم کمپنی ہے۔ وہ ”ورلڈ کال گروپ“ اور ”فرسٹ کیپیٹل“ کے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹر افیسرکی حیثیت سے بھی خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ اس کے علاوہ ان کے بزنس گروپ کی ملکیت میں ”بزنس پلس“ نامی ایک نیوز ٹی وی چینل، بچوں کا ایک ٹی وی چینل، ”ڈیلی ٹائمز“ نامی انگریزی اخبار اور ”روزنامہ آج کل“ نامی اردو اخبار بھی ہے۔
بیس نومبر 2010 کو شہید تاثیر نے ایک ٹویٹ کی جس میں انھوں نے کہا کہ وہ صدر مملکت آصف زرداری سے رحم کی اپیل کے ہمراہ شیخوپورہ ڈسٹرکٹ جیل کے لیے روانہ ہو رہے ہیں جہاں وہ آسیہ بی بی سے ملاقات کریں گے۔
اس کے ساتھ ہی انھوں نے ایک مصرعہ بھی لکھا: ’ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے‘۔
سابق صدر زرداری اور پی پی پی پی کے صدر آصف علی زرداری کی ہدایت پر انہوں نے توہینِ رسالت کے الزام میں موت کی سزا پانے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی سے جیل میں ملاقات کی جس کے بعد انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ آسیہ بی بی کی جانب سے معافی نامہ لے کر صدر آصف علی زرداری کے پاس جا رہے ہیں اور انہیں امید ہے کہ وہ جلد اس پر دستخط کر دیں گے۔
جب اس وقت ان سے یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا صدر صاحب کی جانب سے معافی ملنے سے مذہبی تصادم کا امکان تو نہیں تو گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا کہنا تھا ’نہیں ایسا نہیں ہو گا کیونکہ یہ مذہب کا نہیں انسانیت کا معاملہ ہے اور اس میں مذہب کو نہیں لانا چاہتے اور قائداعظم محمد علی جناح کے دیئے گئے اصولوں کی مطابق پاکستان کو ایک روشن خیال اور ترقی پسند ملک بنانا چاہتے ہیں۔‘
اسی طرح ستمبر 2009 میں لاہور میں ایک تقریب میں صحافیوں سے بات چیت کے دوران جب ان سے سوال کیا گیا کہ سیالکوٹ میں مبینہ طور پر توہین رسالت میں ملوث ایک مسیحی نوجوان کی ہلاکت کے بعد یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ توہین رسالت کے قانون کو ختم کیا جائے تو گورنر پنجاب نے جواب دیا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ دو سوپچانوے سی کا قانون (توہین رسالت کا قانون) ختم ہونا چاہیے۔
اس کے دو روز بعد انھوں نے ایک اور ٹویٹ کی جس میں ان کی جانب سے آسیہ بی بی کی رحم کی اپیل کے لیے کوششیں کرنے کے حوالے سے ان کو ’مُلا‘ کی جانب سے سخت ردعمل کا سامنا ہے اور وہ ان کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس بار بھی انہوں نے فیض احمد فیض کی نظم ’آج بازار میں پا بہ جولاں چلو‘ کا یہ شعر لکھا
’رخت دل باندھ لو دل فگارو چلو، پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو‘
ان کو اس حوالے سے سنگین خظرات کا سامنا رہا، اُن کو قتل کی دھمکیاں ملتی رہیں، مگر وہ جرات اور بہادری سے ڈٹے رہے، 24 دسمبر 2010 کو انہوں نے ایک ٹویٹ کی جس میں انھوں نے لکھا ’ایک شخص یا قوم کے کردار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ وہ کیسے اپنے سے کمزور کی مدد کرتے ہیں نہ کہ اس بات سے کہ اپنے سے طاقتور کے ساتھ کیسا برتاؤ رکھتے ہیں۔‘ اُن کی آخری ٹویٹ یہ تھی کہ ’مجھ پر بہت دباؤ تھا کہ توہینِ مذہب کے معاملے میں دائیں بازو کی قوتوں کے سامنے جھک جاؤں۔ مگر اگر میں اِس صف میں کھڑا آخری انسان بھی ہوں گا تو میں نہیں جھکوں گا۔‘
یہ سب اُن کی بہادری اور انسانیت کی عظمت کے تحفظ کے لئے جرات کی مثالیں ہیں۔ پھر چار جنوری 2011 کو اسلام آباد کی کوہسار مارکیٹ میں انہی کے محافظ ممتاز قادری نے ان کو گولیاں مار کر شہید کردیا۔ اس طرح جرات اور بہادری کا ایک روشن باب اختتام کو پہنچا۔
شہید سلمان تاثیر کی برسی کے موقع پر ہر برس پارٹی قیادت اور جیالے اُن کو زبردست انداز میں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ پارٹی چئیرمین بلاول بھٹو زرداری بھی اُن کی قربانی کو سلام پیش کرتے ہیں، اُن کا عزم ہے کہ زوال پسند قوتوں کے خلاف ہماری جنگ جاری رہے گی، اور شہید سلمان تاثیر کا خوں رائیگاں نہیں جائیگا۔ بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ شہید سلمان تاثیر پکے جیالے اور جمہوریت کے سپاہی تھے، وہ پنجاب میں رواداری اور ترقی پسند سوچ کی بلند و توانا آواز تھے۔ وہ پارٹی کی قیادت، کارکنان اور عوام کو ہمیشہ یاد رہیں گے، ظلم و جبر کا نشانہ بننے کے باوجود تاثیر خاندان کا عزم و حوصلہ غیرمتزلزل ہے، شہید سلمان تاثیر اور ان کے اہل خانہ کو سلام پیش کرتا ہوں۔
سپریم کورٹ کے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے دی جانے والے سزائے موت کو کالعدم قرار دینے کے بعد، آسیہ بی بی رہائی پاکر پاکستان سے دور کسی محفوظ مقام پر ہیں، ممتاز قادری کو بھی اُس کے جرم پر پھانسی ہوچکی ہے۔ شہید سلمان تاثیر کا موقف درست ثابت ہوا ہے، اُن کی عظمت تسلیم ہوئی ہے۔ اب جب بھی سماج میں ظالم کا ظلم بڑھے گا، مظلوم طبقات کو انتظار رہے گا کہ کوئی سلمان تاثیر اُن کے تحفظ اور رہائی کے لئے آئے۔
جب بھی مذہبی اقلیتوں کے خلاف ایذا رسانی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے، چرچوں، مندروں، ننکانہ صاحب اور عبادت گاہوں پر مذہبی جنونی حملہ آور ہوتے ہیں تو اُن کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی ہے۔ پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے شہید سلمان تاثیر کو ان کی نویں برسی پر شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ انتہا پسندی کے خطرات کے آگے اور کمزور طبقات کے حقوق و تحفظ کیلئے آہنی دیوار بن کر کھڑے رہے،پیپلز پارٹی ملک میں رنگ، نسل یا عقیدے کی بنیاد پر کسی قانون کو غلط استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی، ہم بڑی قربانیوں کے بعد ملنے والے حقوق پر کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوں گے۔
شہید سلمان تاثیر کی شہادت ان کے خاندان اور پارٹی کے ساتھ ساتھ قوم کا بھی بہت بڑا نقصان تھا۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ شہید بھٹو کی شروع کردہ وہ جدوجہد جاری رکھیں گے، جو قائداعظم کے 11 اگست 1947کے خطاب کی آئینہ دار ہے۔ یہ جدوجہد پاکستان کو مساوات، جمہوریت اور رواداری کا گہوارہ بنانے کی جدوجہد ہے۔ اسی جدوجہد کے دوران ہم نے شہید محترمہ بینظیر بھٹو اور شہید سلمان تاثیر سمیت بیشمار ہیروز کی قربانیاں دیں۔ ہم بڑی قربانیوں کے بعد ملنے والے حقوق پر کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوں گے۔ اور پیپلز پارٹی ملک میں رنگ، نسل یا عقیدے کی بنیاد پر کسی قانون کو غلط استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔