اس معاملے پر ہونے والی گفتگو میں ان ہی تجزیہ کاروں نے شرکت کی جن پر مبینہ آڈیو میں تنقید کی جارہی ہے۔
تجزیہ کار ریما عمر بولیں کہ (ن) لیگ کا ٹریک ریکارڈ بتاتا ہے کہ وہ میڈيا فریڈم کے چیمپئن نہیں۔
مظہر عباس نے کہا کہ انہیں اپنے پروگرام رپورٹ کارڈ پر فخر ہے، حفیظ اللہ نیازی بولے کہ انہيں کوئی ڈکٹیٹ نہيں کرسکتا۔
حسن نثار نے کہا کہ آڈیو لیک میں ہوئی گفتگو روٹین کی بات ہے ، سہیل وڑائچ نے کہا کہ سامنے آنے والی گفتگو سے جیو اور متعلقہ صحافیوں کی ساکھ مضبوط ہوئی۔
تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے کہا کہ انہیں اب احساس ہوا کہ جیو پر کتنا دباؤ تھا لیکن جیو نے کبھی انہيں یہ نہیں کہا کہ یہ بولنا ہے یا نہیں بولنا۔
خیال رہے کہ سوشل میڈیا پر مریم نواز اور پرویز رشید کی مبینہ آڈیو گردش کررہی ہے جس میں دونوں جیو نیوز کے پروگرام ’ رپورٹ کارڈ‘ کے تجزیہ کاروں پر تنقید کر رہے ہیں اور پرويز رشید کی جانب سے نازیبا الفاظ بھی استعمال کیے گئے تھے۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) نے اپنے رہنماؤں کی ٹیلی فون کالز کی ریکارڈنگ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
مذکورہ ویڈیو لیک پر ردِ عمل دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا کہ رازداری کے آئینی حق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ٹیلی فون کالز اور نجی گفتگو کو خفیہ طور پر ٹیپ کرنا اور پھر اس میں شامل افراد کی رضامندی کے بغیر انہیں لیک کرنا اصل جرم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیے اور پرائیویسی میں دخل اندازی کے مرتکب پائے جانے والے مجرموں کو قانون کے مطابق مثالی سزا دی جانی چاہیے۔
آڈیو لیک کا معاملہ سینیٹ میں بھی زیر بحث آیا جہاں چیئرمین صادق سنجرانی نے اس معاملے پر پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں بحث کی اجازت دینے کا نہ دینے پر بعد میں رولنگ دینے کا فیصلہ کیا۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر یہ قیاس آرائیاں بھی عروج پر تھیں کہ سیاستدانوں کی گفتگو کو کون ریکارڈ کر کے خاص وقت پر لیک کررہا ہے۔