شہر کے وسط میں زمین کی کمی سے لے کر بڑے پیمانے پر کی جانے والی سرمایہ کاریوں نے 'زمین' کی قیمت کو بلند ترین سطح پر پہنچا دیا جو اس کی حقیقی قیمت سے کہیں زیادہ ہے۔
رسمی آبادیوں کی زمین کی قیمت کے ساتھ ساتھ ان سے ملحقہ غیر رسمی آبادیوں کی زمینوں کی قیمت بھی لاکھوں تک جا پہنچی ہے۔ یہ وہی زمین ہے جس کی قیمت بہت کم ہوا کرتی تھی اور یہاں پر لوگوں کو بسا کر سالہا سال تک سیاسی فوائد حاصل کئے گئے مگر اب چونکہ شہر کا سیاسی منظر نامہ بدل چکا ہے، ان غیر رسمی بستیوں کے مکینوں کے ووٹ اب اتنے طاقتور نہیں رہے، اس لئے اپنی تیسری نسل کے ساتھ یہ مکین غیر قانونی اور قابضین ہوگئے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ زمین 'بہترین معیار کی زمین' میں تبدیل ہو گئی اور بڑے بڑے ادارے، سیاست دان اور سرمایہ کاروں کی نظریں ان زمینوں پر لگ گئیں کہ کسی طرح ان غریبوں سے یہ زمین حاصل کرکے تجارتی مقاصد کے لئے استعمال کی جائے۔
سرکاری اعداوشمار کے مطابق کراچی کی آبادی تقریباً 16 ملین ہے جبکہ اکثریت کا موقف ہے کہ کراچی کی آبادی 25 سے 30 ملین ہے۔ رہائش کاروبار/ روزگار، پبلک ٹرانسپورٹ، صاف پانی، سیوریج کراچی کے اہم مسئلے ہیں کراچی وہ شہر ہے جس کے 62 فیصد لوگ کچی آبادی میں رہنے پر مجبور ہیں۔
درحقیقت یہ حکومت اور اداروں کی ناکامی ہے کہ وہ کراچی کے شہریوں کو رہائش کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔ کراچی کی زیادہ تر کچی آبادیاں، سندھ کچی آبادی اتھارٹی یا بلدیہ عظمیٰ کراچی کے تحت لیز ہیں اور اکثر گوٹھ، سندھ آباد گوٹھ سکیم کے تحت لیز ہوئے۔ کچھ ایسی آبادیاں اور گوٹھ ہیں جو ان اداروں کی لسٹ میں شامل ہیں مگر ان کا سروے ابھی تک نہیں ہوا تاہم وہ ابتدائی لسٹ میں شامل ہیں۔
کراچی شہر تیزی سے پھیل چکا ہے اور زمین کی کمی کے باعث اب یہ صورتحال ہے کہ کچی آبادیوں اور غیر رسمی بستیوں کو مسمار کرکے اور ان کے مکینوں کو بے دخل کرکے ہی شہر کے وسط میں زمین کا حصول ممکن ہے اور یہ کام شہر کو 'صاف' کرنے اور 'ترقی' دینے کے نام پر جاری وساری ہے اور یوں یہ زمین حاصل کر کے نجی سرمایہ کاری اور مسابقت میں اضافہ کی جگہ بنائی جا رہی ہے۔
اس سے قبل بھی بنیادی ڈھانچے اور شہری ترقیاتی منصوبوں کے نام پر 1997ء سے لے کر اب تک کراچی میں 6 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
اگست 2020ء کی مون سون کی بارشوں کے باعث کراچی کو شہری سیلاب کا سامنا رہا اور شہر کے اکثر علاقے ڈوب گئے تھے۔ اس کے نتیجے میں کراچی میں نالوں کی صفائی کا عمل شروع ہوا اور غیر رسمی بستیوں کی ایک بڑی تعداد بے دخلی کے خطرے سے دوچار ہو گئی۔
اس حوالے سے جن نالوں میں صفائی کا عمل شروع کیا گیا ان میں تین بڑے نالے منظور کالونی نالہ ( محمود آباد نالہ)، گجر نالہ اور اورنگی نالہ شامل ہیں لیکن ان نالوں کے اردگرد بسنے والے مکینوں کو براہ راست بے دخلی کے نوٹس دیئے گئے اور بلدیہ عظمیٰ کراچی نے آبادیوں میں گھروں پر نشانات لگا دیئے کہ اتنے گھروں کو مسمار کیا جائے گا جبکہ اس میں سے کئی گھر لیز تھے مگر ان کے ساتھ کوئی مطالعاتی جائزہ یا تحقیقی رپورٹ شیئر نہیں کی گئی اور نہ ہی متاثرین کی لسٹ اور ان کی دوبارہ آباد کاری کے حوالے سے کوئی واضح لائحہ عمل بیان کیا گیا۔
شہر میں مختلف ترقیاتی منصوبوں کے نام پر کم آمدنی والے طبقے کی بے دخلی کا عمل جاری ہے جیسا کہ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے منصوبے میں ہوا اور 1000 سے زائد خاندانوں کو بے گھر کر دیا گیا اور سپریم کورٹ کے 9 مئی 2019 کے احکامات کے باوجود انہیں کسی طرح کی متبادل رہائش فراہم نہیں کی گئی۔ ان میں سے کئی متاثرین آج بھی اپنے گھروں کے ملبے پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ کئی ایک خاندان ایسے ہیں جن کی روزمرہ سے متعلق سہولیات پانی اور سیوریج کی لائن اور راہ گزر متاثر ہوئی۔
اسی طرح ملیر ایکسپریس وے منصوبے میں عوام اور سول سوسائٹی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا جبکہ لیاری ایکسپریس وے کی ناکامی ہمارے سامنے ہے جس میں قریب 77،000 خاندانوں کو بے گھر کیا گیا تھا مگر لیاری ایکسپریس وے کا اصل مقصد حاصل نہ ہوسکا۔
کراچی میں پچھلے تین سالوں سے جاری انسداد تجاوزات آپریشن سے غریب طبقہ بری طرح متاثر ہو رہا ہے خصوصاً وہ طبقہ جو روزانہ کی بنیاد پر کماتا ہے۔ شہر کی معروف ایمپریس مارکیٹ سے شروع ہونے والا سلسلہ اب تک ناصرف جاری وساری ہے بلکہ تجارتی املاک کے بعد اب رہائشی مکانات تک جا پہنچا ہے۔
ایمپریس مارکیٹ سمیت شہر کی مختلف مسمار کی گئے بازاروں میں کئی دہائیوں سے موجود دکانیں، ٹھیلے اور پتھارے والوں نے یہاں اپنا روزگار جما لیا تھا جسے اب ایک بڑا عرصہ بلکہ نصف صدی گزری۔
ان کے یہاں موجود ہونے کی ذمہ داری میں بذاتِ خود ان افراد کے علاوہ کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن اور دیگر اداروں کے اہلکار بھی برابر کے شریک ہیں کیونکہ یہ دکانیں کے ایم سی سے لیز تھیں جنہیں بالخر مسمار کردیا گیا۔
کمال بات یہ کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کے ایم سی نے بغیر نوٹس کے لیز منسوخ کرکے دکانوں کو مسمار کیا جس سے غریب طبقے کا روزگار ختم ہوا جبکہ ان سرکاری اداروں اور ان کے نمائندوں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی جس میں کے ایم سی، محکمہ پولیس، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی تک سب ادارے شامل ہیں۔
تجاوزات کے نام پر یا ترقی کے نام پر آپریشن سے قبل سروے کرکے یہ حساب لگانا انتہائی ضروری امر ہے کہ متاثرین کی تعداد کتنی ہے؟ اور کتنے خاندان اس آپریشن مسماری سے متاثر ہوتے ہیں؟ مگر ایسا کوئی سلسلہ نظر نہیں آتا کیونکہ ہم ان تمام معاملات کو معاشرتی نقطہ نظر سے نہیں دیکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ تجاوزات کے خلاف حالیہ آپریشن اور سرکاری اداروں کا یہ رویہ لوگوں کو ذہنی پریشانی میں مبتلا کر رہا ہے۔
شہر کراچی میں پہلے ہی لوگ روزگار، پانی وبجلی کی کمی، مہنگائی، طبی سہولیات، ذرائع آمدورفت کی کمی، تعلیمی تنزلی سے پریشان غربت کے نچلے درجے پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں پھر یہ کہ ان کے سامنے رہائش کا مسئلہ بھی کھڑا کر دیا گیا۔
کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی (کے ایم سی) کے اہلکار گجر اور اورنگی کے ساتھ آبادیوں میں لوگوں کے گھروں کو مسمار ہونے سے "بچانے" کے لیے جنسی خواہشات پوری کئے جانے کے طلب گار ہوئے یعنی مجموعی طور پر ریاست کی قیادت میں تشدد کا پیمانہ بہت خوفناک ہے۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جزوی طور پر عدالتی احکامات سے متاثر ہو کر کراچی جبری بے دخلی اور بے گھر ہونے والے ایک شدید اور تیز ترین دور میں داخل ہو گیا ہے۔ اگر یہ شہر اسی انداز میں اپنے موجودہ راستے پر چلتا ہے تو اس کے لاکھوں باشندوں کی زندگیوں اور معاش کے لئے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔