تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کی جج جسٹس عائشہ ملک کے سپریم کورٹ میں تقرر کے حوالے سے جاری ہونے والے اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’کم از کم 41 مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ کسی جج کو سینیئر ترین نہ ہونے کے باوجود سپریم کورٹ میں تعینات کیا گیا ہو، اس وجہ سے سینیئر ترین جج کی تعیناتی کوئی روایت بھی نہیں ہے، ’سینیارٹی بار کے کچھ ممبران کا مطالبہ ہے تاہم اس کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے‘۔
بیان میں آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 175 اے (3) کا حوالے دیا گیا ہے ’جس میں صرف چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کے لیے سینیارٹی کی بات کی گئی ہے‘۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آرٹیکل (2)177 کے مطابق سپریم کورٹ کا جج بننے کے لیے پاکستان کا شہری اور 5 سال تک ہائی کورٹ کا جج یا 15 سال تک ہائی کورٹ کا ایڈووکیٹ ہونا ضروری ہے۔
بیان کے مطابق ’آرٹیکل 177 میں سپریم کورٹ میں تعیناتی کی شرائط میں ’سینیئر ترین‘ کے الفاظ نہ ہونے کا مطلب ہے کہ سپریم کورٹ میں تعیناتی کے لیے ہائی کورٹ کے جج کا سینیئر ترین ہونا ضروری نہیں ہے‘۔
ویمن ان لا پاکستان نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ’سینیارٹی کو ایک عبوری اقدام کے طور پر اختیار کرنے سے مزید شفافیت اور بہتر نمائندگی کے لیے ضروری مجموعی اصلاحات کی بحث میں رکاوٹ آئے گی‘۔
یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب وکلا برادری کے ایک حصے نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد سے جسٹس عائشہ کی ترقی پر غور کرنے کے لیے 6 جنوری کو ہونے والے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس کو ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا۔
پیر کے روز ایک نمائندہ اجلاس میں پاکستان بار کونسل کے چیئرمین خوش دل خان اور ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین محمد مسعود چشتی اور دیگر نے اعلان کیا تھا کہ اگر ان کا مطالبہ تسلیم نہ کیا گیا تو پاکستان بار کونسل اور تمام بار ایسوسی ایشنز ہر سطح پر عدالتی کارروائیوں کا بائیکاٹ کریں گی۔