راولپنڈی میں پریس کانفرنس کے دوران سابق وزیراعظم نوازشریف سے ڈیل سے متعلق سوال پر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ ’یہ سب قیاس آرائیاں ہیں، اگر کوئی اس طرح کی ڈیل کی بات کرتا ہے تو اسی سے بات کریں کہ کون ڈیل کررہا ہے ؟ اس کے محرکات کیا ہیں؟ ایسی کوئی چیز نہیں، کوئی ایسی بات کرتا ہے تو اس کی تفصیلات اس سے ہی پوچھیں، ڈیل کی باتیں بے بنیاد ہیں، اس پر جتنی کم بحث کی جائے اتنا ملک کے مفاد میں اچھا ہے‘۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ’کچھ عرصے سے پاکستان کے مختلف اداروں کے خلاف منظم مہم چلائی جارہی ہے جس کا مقصد حکومت، عوام اور اداروں کےدرمیان خلیج پیدا کرنا اور اداروں پر عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانا ہے، ایسی تمام سرگرمیوں سے نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ ان کے لنکس سے بھی آگاہ ہیں، یہ لوگ پہلے بھی ناکام ہوئے اب بھی ناکام ہوں گے‘۔
ترجمان نے مزید کہا کہ شام کوپروگرامزمیں کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے یہ کر دیا وہ کر دیا، سول ملٹری تعلقات میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، اسٹیبلشمنٹ کو اس مسئلے سے باہر رکھیں۔
اب کیا کیجیے کہ چاہتے تو پاکستان کے سب عوام ہی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دور رکھا جائے، اس موضوع پر بات نہ کی جائے لیکن کیا یہ ایک ایسے ممکن ہے کہ جہاں قریباً 32 سال فوج کا سربراہ براہِ راست حکمران رہا ہو اور جہاں کم از کم ایک مرتبہ فوج کے اندر اقتدار پر قبضے کی کوشش ناکام بنائی گئی ہو اور اس کے لئے فوج کے اپنے ادارے کی جانب سے ان افراد کو سزا دی گئی ہو جو اس سازش میں ملوث تھے؟ یہ 1995 کا واقعہ ہے جب برگیڈیئر بلا کی سازش پکڑی گئی تھی جو بینظیر بھٹو کی حکومت گرانے کی سازش میں مصروف تھے۔ اس سے قبل 1951 میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ ہو چکا ہے۔ اسے راولپنڈی سازش کیس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ بھی نہیں بھولا جا سکتا کہ 2014 کے دھرنے کے حوالے سے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف خؤد ریکارڈ پر ہیں کہ تب کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل (ر) ظہیر الاسلام نے عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی جماعتوں کے مشترکہ دھرنے کے عروج پر انہیں یہ پیغام بھیجا تھا کہ وہ استعفا دے دیں اور نواز شریف کے بقول انہوں نے انکار کر دیا تھا۔ کیا یہ حقیقت فراموش کی جا سکتی ہے کہ ایک اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل (ر) احمد شجاع پاشا کے لئے آج کی حکومت کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے سربراہان چودھری پرویز الٰہی اور چودھری شجاعت حسین ریکارڈ پر کہہ چکے ہیں کہ وہ ان کے لوگوں کو توڑ کر پاکستان تحریکِ انصاف میں شامل کروانے کی کوشش کر رہے تھے۔
اور پھر میجر جنرل بابر افتخار سے پہلے جو صاحب اس عہدے پر موجود تھے، انہوں نے الیکشن میں پی ٹی آئی کی کامیابی پر ٹوئیٹ کیا تھا کہ وتعز من تشاء وتذل من تشاء۔ اب بابر افتخار صاحب کہتے ہیں کہ فوج کا ایسا کوئی کردار نہیں، نہ وہ نواز شریف سے بات کر رہی ہے، نہ ہی کسی اور سے، تو یہ خوش آئند بات ہے۔ لیکن مدعا تو صرف میڈیا کا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میڈیا پر روز رات یہ باتیں ہوتی ہیں۔ تو ان کو بس اتنا بتانا چاہتے ہیں کہ بات ہوتی ہے تو اس کی وجہ بھی ہے۔ اس ملک کا ایک ماضی ہے۔ اس ملک کی کچھ حقیقتیں ہیں۔ اور ان سے نظریں چرانا ممکن نہیں ہے۔ اور اس بار بھی ان افواہوں میں جان تو خود وزیر اعظم عمران خان نے ڈالی جب میڈیا میں ان کے کابینہ اجلاس کے دوران کہے یہ جملے رپورٹ ہوئے کہ ایک بندے کو چوتھی دفعہ لا کر وزیر اعظم بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں اور یہ کہ ایک سزا یافتہ مجرم کیسے وزیر اعظم بن سکتا ہے؟ ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان سے امید ہے خان صاحب کو بھی کچھ ڈھارس بندھی ہوگی۔
رہی بات نواز شریف سے بات چیت کی تو یہ تو اچھا ہے کہ ان سے اسٹیبلشمنٹ کی کسی سطح پر کوئی بات نہیں چل رہی۔ پاکستان کے سیاسی نظام میں فوج سے تعلق کو سیاستدان کے لئے نیک شگون سمجھا جاتا ہے۔ وجہ اس کی وہی ہے جو اوپر بیان کی جا چکی ہے۔ گذشتہ ہفتے آصف علی زرداری صاحب کے بیان پر انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق بھی یہی سوال پوچھا گیا تھا کہ وہ نام بتائیں جس نے ان سے بات کی ہے۔ اب بھی یہی بات کر کے ان تمام مفروضوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا ہے کہ کسی کی کسی سطح پر کسی سے کوئی بات چیت جاری ہے۔ لیکن یہ بھی نکتہ اہم ہے کہ جب اپوزیشن رہنماؤں سے بات چیت کی خبریں میڈیا میں پھیل رہی ہوں تو یہ وضاحت دینا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ البتہ جب وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ میرے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے، یا ان کے وزرا کہتے ہیں کہ ہم سب ایک ہی صفحے پر ہیں، تو وہاں وضاحت نہیں دی جاتی۔ کیا اس سے یہ مراد لی جائے کہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حکومتی جماعت کو حاصل ہے؟ اگر نہیں تو پھر یہ سلسلہ حکومت کی جانب سے بھی بند ہونا چاہیے۔ سیاست صرف سیاستدانوں کو ہی کرنی چاہیے۔ ریاستی ادارے اس سے جتنے دور رہیں، پاکستان کی سالمیت کے لئے اتنا ہی اچھا ہے۔