اپنے یوٹیوب چینل پر سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے صابر شاکر کا کہنا تھا کہ ہمارے آئین اور قانون میں واضح طور پر درج ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت غیر ملکی فنڈنگ نہیں لے سکتی، اپنا بینک اکائونٹ نہیں چھپا سکتی جبکہ کسی سرکاری یا غیر سرکاری فارن تنظیم سے اسے ایک روپیہ بھی اسے نہیں دیا جا سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے قانون میں تین چیزوں پر کوئی کمپرومائز نہیں ہے، ان میں سے پہلی یہ ہے کہ سیاسی جماعت بیرونی فنڈنگ نہیں لے سکتی، دوسری دہشتگرد کارروائیوں میں ملوث نہیں ہو سکتی اور تیسری یہ کہ ملکی سالمیت کیخلاف کوئی اقدام نہیں اٹھا سکتی۔ ان تینوں میں سے ایک چیز بھی ثابت ہو جائے تو پولیٹیکل پارٹی اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی۔
انہوں نے کہا کہ سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ پر فیصلہ آنے سے پہلے پہلے اب پی ٹی آئی کیلئے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ بچا ہے کہ کسی نئے نام سے سیاسی جماعت رجسٹرڈ کروائی جائے اور تمام عہدیدار مستعفی ہو جائیں۔
صابر شاکر کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ صرف پی ٹی آئی نہیں بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں جن میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ بھی شامل ہیں کے ساتھ ہوا ہے۔ یہ جماعتیں دانستہ یا غیر دانستہ بیرون ممالک سے فنڈنگ لیتی رہی ہیں لیکن اس کو کبھی ظاہر نہیں کیا جاتا رہا۔ اب ملک کی ان بڑی جماعتوں کا فیصلہ عدالت ہی کرے گی۔
بعد ازاں اے آر وائی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے صابر شاکر کا کہنا تھا کہ پہلے دن سے کہتا آ رہا ہوں کہ پی ٹی آئی کیخلاف فارن فنڈنگ کا کیس بہت مضبوط اور سنجیدہ ہے۔ گھر کے بھیدی نے ہی لنکا ڈھا دی۔ اکبر ایس بابر کے پاس سب کچھ ثبوتوں کیساتھ تھا جسے انہوں نے پیش کر دیا۔ یہ قانون اس قدر واضح ہے کہ اس میں اگر مگر نہیں ہے۔ 302 کے کیس میں تو عدالت کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ وہ ملزم کو سزائے موت دیدے یا عمر قید، لیکن یہ پاکستانی قانون میں یہ بات بڑی واضح ہے کہ اگر فارن فنڈنگ ثابت ہو جائے تو وہ جماعت کالعدم ہو جاتی ہے۔ اگر یہ اتنا سادہ کیس ہوتا تو 7 سال تک لٹکایا نہ جاتا۔
وزیراعظم نے آج اسی معاملے کی حساسیت جو جانتے ہوئے ٹویٹ میں کہا ہے کہ میں منتظر ہوں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے معاملے پر سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کا منتظر ہوں۔ میرے خیال میں وہ چاہتے ہیں کہ دونوں جماعتوں کی رپورٹس بھی آجائیں تو ان کیساتھ معاملات طے کرنے کیلئے بات چیت کرتے ہوئے قانون سازی پر آمادہ کیا جائے تاکہ پی ٹی آئی، ن لیگ اور پی پی پی تینوں جماعتیں بچ جائیں۔