ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی بھی تلاشی لینے کی بات مان لی جائے تو نواز شریف اور آصف زرداری کو ایک بار پھر ڈس کوالیفائی کرنے سے کچھ نہیں ہوگا کیونکہ دونوں جماعتوں کے پاس اپنی پارٹیاں سنبھالنے کیلئے سیاسی قیادت موجود ہے لیکن عمران خان ڈس کوالیفائی ہوئے تو پی ٹی آئی کا کیا ہوگا؟
رضا رومی کا کہنا تھا کہ ابھی سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کے بڑے مراحل ہیں۔ ابھی اس کے مندرجات چیلنج ہونگے، وہ فائنل ہوگی۔ اس کے بعد کیس سپریم کورٹ میں جائے گا، وہاں کارروائی شروع ہوگی، پیشیاں ہونگی۔ لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ اگر خان صاحب اگلے دو تین ماہ ان مشکلات سے نبرد آزما ہو جاتے ہیں تو پھر وہ بچ جائیں گے، کوئی مائی کا لعل ان کا کچھ نہیں کر سکتا۔
مرتضیٰ سولنگی نے موضوع گفتگو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی رہنمائوں کو اندازہ ہی نہیں کہ وہ کس چیز میں پھنس رہے ہیں۔ اگر کوئی غیبی امداد نازل ہوئی تو اور بات ہے لیکن قانون کی رو سے جو باتیں سامنے آئیں وہ بہت سنگین ہیں۔ نواز شریف کو تو سپریم کورٹ نے تنخواہ کے منعاملے پر نااہل قرار دیدیا تھا۔
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار کی پریس کانفرنس پر بات کرتے ہوئے مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ ایک بے وقوفانہ سوال کے جواب میں میڈیا کے سامنے کھڑے ہو کر وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہاں ہماری نواز شریف کیساتھ بات چیت ہو رہی ہے۔ ہم اس کو واپس لانے کیلئے راہ ہموار کر رہے ہیں۔ اس سوال کو جو سیدھا جواب بنتا تھا ایک آرمی افسر ہونے کی حیثیت سے انہوں نے دیدیا۔
انہوں نے کہا کہ اس کا سیاسی جواب یہ ہے کہ وزیراعظم ہائوس میں ایک اجلاس ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ نواز شریف کیلئے راہ ہموار کی جا رہی ہے، راستے بنائے جا رہے ہیں۔ شریف برادران نے تو ابھی تک ایسا کچھ نہیں کہا کہ ہماری ڈیل ہو رہی ہے۔ نواز شریف نے تو بس اتنا ہی کہا تھا کہ آپ سے جلد ملاقات ہوگی یا ایاز صادق نے بھی بیان دیا کہ میں 20 تاریخ کو لندن جا رہا ہوں اور انھیں واپس لے کر ہی آئوں گا۔
ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے برے سے برے حالات میں بھی اپنی پارٹی پر گرفت مضبوط رکھی۔ ملک کے مقتدر حلقوں میں یہ رائے ہے کہ عمران خان کی پی ٹی آئی پر ان کی طرح گرفت مضبوط نہیں ہے۔