نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے اعجاز احمد نے کہا کہ عمران خان نے آج کی پریس کانفرنس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ کارکن جو جلسے میں قتل ہوا تھا، اس پر حملہ کسی اور حملہ آور نے کیا تھا، اس سے انہوں نے ایک اور حملہ آور ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ عمران خان اور رانا ثناء اللہ کو تفتیش مکمل ہونے تک بیانات سے گریز کرنا چاہئیے۔
معروف قانون دان عبدالمعز جعفری نے کہا کہ مفتاح اسماعیل ابھی بھی بہت شائستگی اور لحاظ سے بات کر رہے ہیں، (ن) لیگ پنجاب کی پارٹی ہے، مفتاح سے ان کا سلوک ظاہر کرتا ہے کہ (ن) لیگ کا باقی صوبوں سے تعلق رکھنے والے پارٹی رہنماؤں سے کیسا سلوک ہے۔ مفتاح کو میمن اور کراچی کا ہونے کی وجہ سے پارٹی میں نسل پرستی کا نشانہ بنایا گیا۔ شاہد خاقان عباسی کے دور میں معاشی صورت حال بہت خراب ہوئی تھی۔ پاکستان کے سیاست دان اور بالخصوص اسحاق ڈار آئی ایم ایف کے بارے میں غیر منطقی باتیں کرتے ہیں، بھیک مانگنے پر شرائط ماننا پڑتی ہیں۔ موجودہ حکومت کے انداز حکمرانی نے اشرافیہ کو بہت نوازا ہے اور اس کے ساتھ ان کی کارکردگی بھی خراب رہی ہے۔
عبدالمعزجعفری نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے سیاسی پارٹیوں کے لیے فنڈنگ کے معاملے پر کوئی واضح منشور نہیں دیا جس کی وجہ سے سارے مسائل بنے ہوئے ہیں۔ ماضی میں سیاسی پارٹیوں نے جس طرح قرضے لیے اور پھر معاف کروائے، اگر پی ٹی آئی کے پاس ان کی حکومت میں مستند اور قابل لوگ ہوتے تو یہ لوگ پکڑے جاتے۔ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ نے امداد دلوانے کے لیے باہر سے پیسے لینے میں ان کی مدد کی۔ عمران خان کن بنیادوں پر دعویٰ کرتے ہیں کہ حملہ آور تین ہیں؟ عمران خان کے کیس میں واقعات کی کڑیاں ہی نہیں جڑ رہیں۔
تجزیہ کار خرم حسین نے کہا کہ اگرعمران خان پر قاتلانہ حملے میں تین حملہ آور تھے تو پھر ایک گولی چلنے کی آواز کیوں آئی تھی؟ یہ نظر آتا ہے کہ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوئے سکیورٹی اہلکار کی گن سے فائر ہوئے ہیں۔ عمران خان جس کنٹینر پر کھڑے تھے اس کے اندر سے گولیوں کے گزرنے کے چھید تھے، اگر تین حملہ آور تھے تو پھر باقی دو حملہ آوروں کے شواہد کدھر ہیں؟
انہوں نے کہا کہ مفتاح نے اپنے الفاظ پر ٹویٹ کے ذریعے سے معافی مانگی ہے۔ مفتاح کے بارے میں پارٹی کے اندر ایک متعصب رائے پائی جاتی ہے، ان کے پاس پورا حق ہے کہ وہ خود کا دفاع کریں۔ اسحاق ڈار اپنے دعوؤں پر پورے نہیں اتر سکے، جنوری آ گیا ہے مگر ابھی تک آئی ایم ایف سے کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ مفتاح اپنے مؤقف پر بالکل ٹھیک ہیں، ابھی جو صورت حال ہے مفتاح کب سے یہی کہہ رہے تھے۔
خرم حسین نے کہا کہ مفتاح نے جو کام کیا تھا وہ سب کے سامنے ہے۔ مفتاح کے اقدامات پر رہتے تو اب تک ممکن ہے ہم مشکل دور سے نکل چکے ہوتے۔ ابھی گردشی قرضوں کی وجہ سے پاکستان کی درآمدات کو بھی روک دیا گیا ہے، موجودہ حالات ملک اور معیشت دونوں کے لیے اچھے نہیں ہیں۔ عمران خان بھی موجودہ حکومت کی طرح آئی ایم ایف کے روڈ میپ پرعمل کرنے کی بجائے باہر سے پیسے لاتے رہے جس سے ملک اور معیشت کا نقصان ہوا۔ پاکستان بیرونی امداد لینے کے باوجود پھر اسی جگہ پر کھڑا ہوگا۔ اس امداد سے وقتی ریلیف تو مل سکتا ہے مگر مستقل حل نہیں ملے گا، اسحاق ڈار کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہئیے۔
پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ ‘خبر سے آگے’ ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔