جاوید چوہدری لکھتے ہیں کہ:
"میں یہ واقعہ 29 دسمبر کے کالم 'جنرل باجوہ کے دو این آر او' میں لکھ چکا ہوں‘ مجھے اس کے بعد زرداری صاحب کے وکیل اور سابق وزیر قانون سینیٹر فاروق ایچ نائیک کا فون آیا 'ان کا کہنا تھا آصف علی زرداری کی باقاعدہ ضمانت ہوئی تھی اور یہ اس کے بعد کراچی شفٹ ہوئے تھے جب کہ ان کے مقدمات بدستور اسلام آباد ہی میں چلتے رہے‘میں نائیک صاحب کا احترام کرتا ہوں۔ انھیں چیلنج نہیں کر رہا لیکن میری اطلاعات کے مطابق جنرل فیض نے عمران خان کی ہدایت پر آصف علی زرداری کو نیب اور عدالت سے رعایت لے کر دی تھی اور رعایت کے بعد دو واقعات ہوئے تھے‘ زرداری صاحب کراچی چلے گئے اور یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں حکومت کی اتحادی باپ پارٹی کے چارارکان کے ووٹ دے کر اپوزیشن لیڈر بنا دیا گیا تھا‘۔ ان کا کہنا تھا کہ "یہ جنرل فیض کی مہربانی تھی اور یوں پی ڈی ایم ٹوٹ گئی"۔
جاوید چوہدری نے مزید لکھا کہ "ستمبر2020 میں ایف اے ٹی ایف کے بل کی منظوری کے موقعے پر ایک بار پھر مداخلت ہوئی جس کے بعد اپوزیشن مایوس ہو گئی لیکن جنرل باجوہ نے ملک محمد احمد کے ذریعے ن لیگ کے قائدین کو پیغام بھجوایا ’’اب کسی کو کوئی فون نہیں آئے گا‘‘ اور یہ وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جس کے بعد چیزیں بدلنا شروع ہو گئیں‘ پی ڈی ایم دوبارہ ایکٹو ہوئی اور حکومت گرتی ہوئی دیوار کی طرح آہستہ آہستہ گرتی چلی گئی"۔
یاد رہے کہ جاوید چوہدری نے اپنے 29 دسمبر کے کالم میں بھی اس بات کا ذکر کیا تھا کہ آصف زرداری کو کیسز میں ریلیف دینے میں اور ان کی ضمانت کروانے میں جنرل (ر) باجوہ اور فیض حمید نے عمران خان کے کہنے پر اپنا کردار ادا کیا تھا، جس کے نتیجے میں آصف علی زرداری کے کیسز کراچی شفٹ ہو گئے۔ جاوید چوہدری نے کہا تھا کہ یہ سارا منصوبہ پی ڈی ایم کو توڑنے کے لئے تھا جس میں عمران خان کامیاب ہو گئے۔
تاہم، متعدد صحافیوں اور سیاسی کارکنان کی جانب سے توجہ دلائے جانے کے بعد کہ زرداری صاحب کے کوئی کیسز کراچی منتقل نہیں ہوئے، جاوید چوہدری نے اگلے کالم میں یہ تصحیح کی ہے۔ ان کے مطابق خبر غلط نہیں تھی، زرداری صاحب کے کیسز منتقل نہیں ہوئے لیکن ان کو ریلیف دیا گیا تھا۔