“ہذا من فضل ربی”
مجھ پر پروردگار کا کرم ہے۔
یہ بدبخت دراصل احساس جرم کو ان مقدس الفاظ کے پیچھے چھپا دیتے ہیں جو کبھی ایماندار لوگ اظہار تشکر کے لئے استعمال کرتے تھے۔
سیاسی اختلافات اور تنقید اپنی جگہ لیکن یہ جو بیان کر رہا ہوں یا ایک ایسا سچ ہے جسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا، بلوچستان پاکستان کا واحد وہ صوبہ ہے جو دیگر صوبوں سے کئی گنا زیادہ قدرتی معدنیات سی مالامال ہے لیکن پھر بھی 2018 میں بلوچستان کو دنیا میں غربت و پسماندگی میں پہلے نمبر پر دیکھا گیا۔
آخر اس پسماندگی کا ذمہ دار کون؟ ریاست یا پھر بلوچ سردار اور نواب جنہیں بلوچ قوم اپنا رہبر سمجھتی ہے؟
مسئلہ یہ ہے کہ آج تک بلوچ کی اصل آواز کو سنا ہی نہیں گیا۔ سُنا کیسے جاتا؟ بولتے ہی چُپ جو کروا دیا جاتا ہے۔ کبھی سرداروں اور نوابوں کی جانب سے تو کبھی ریاست کے۔ ریاست نے کبھی بلوچ سرداروں اور نوابوں سے ہٹ کر محکوم بلوچ کی آواز کو سننا پسند ہی نہیں کیا یہ بات میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں جہاں محکوم بلوچ نے آواز اُٹھائی وہیں نوابوں کی بنائی ہوئی کال کوٹھریوں میں قید کر دیا جاتا۔
تعلیم انسان کی زندگی میں انتہائی ضروری ہے اور تعلیم حاصل کرنا ہر انسان کا بنیادی اور آئینی حق بھی ہے۔ اگر آپ کے پاس تعلیم ہو گی تو آپ بہت سی جھوٹی باتیں اور جھوٹے پروپیگنڈے کرنے والے افراد سے بچے رہیںگے اور اُن جھوٹا پروپیگنڈا کرنے والے افراد سے سوال بھی کر سکتے ہیں۔
تعلیم سے محروم صوبہ بلوچستان آج حالات جنگ میں کیوں ہے اس کی بڑی وجہ سردار اور نواب ہیں جو تعلیم سے محروم افراد کو کچھ پیسوں کا لالچ دے کر ہتھیار ہاتھ میں تھما دیتے ہیں اور برین ٹیومر جیسی خطرناک بیماری اُن کے دماغ میں یہ کہہ کر بھرتے ہیں کہ پنجابی اور پنجاب تمہارا دشمن ہے اور انہیں قتل کرنا تمہاری ذمہ داری ہے اور یہ مٹی تمہاری ماں ہے اس کی حفاظت کرنا تمہاری زمہ داری اور تمہارا مذہب ہے۔
اب زرا اس تصویر پر غور کیجئے کہ علحیدگی پسند تنظیم بی آر پی اور اس جیسی دیگر علحیدگی پسند تنظیموں کے سرپرست ایئر کنڈیشن والے عالیشان گھروں میں اور بڑی بڑی لمبی گاڑیوں میں باہر مزے لوٹتے ہیں اور بلوچستان میں بےروزگار اور مجبور افراد کی مجبوری کا فائدہ اُٹھاتے ہیں اور ہتھیار تھما کر اُن کے خُون کا سودا کرتے ہیں براہمداغ بگٹی جیسے کم ظرف جو خود کو بلوچ قوم کا لیڈر مانتے ہیں۔
اس تناظر میں پاکستان کے مسئلے کو سمجھنا آپ کے لئے بہت آسان ہو جانا چاہیے۔ ایک بار پھر میں بھی اسی طبقے کا سوال کرتا ہوں جس سے کہ میں خود ہوں اور جس طبقے کو براہمداغ جیسے لوگ آزادی کے نام پر دھوکہ دے رہے ہیں۔ بلوچ آزاد نہیں بلکہ ان سرداروں کا محکوم ہی رہے گا۔ آزاد یہ ہوں گے اپنی الگ دُنیا قائم کر کے بلکہ یہ کہیں کہ ہو چکے۔ ہمیں تب بھی ان کا محکوم ہی رہنا ہے۔ ریاست نے کبھی سرداروں سے نکل کر عام بلوچ کی آواز سُننا پسند ہی نہیں کی۔ وہ عام بلوچ جو اس لڑائی میں دونوں طرف سے مارا جا رہا ہے، جس کو نہ سکون سے جینا میسر ہے اور نہ سکون سے مرنا۔