جیونیوز کے پروگرام جیو پاکستان میں ٹیپس کے معاملے پر بات کرتے ہوئے حامد میر نے کہا کہ ’تین چار سال پہلے جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو ٹیپ آئی ان کے خلاف کارروائی ہوئی اور انہیں نوکری سے فارغ کیاگیا، اس پر سپریم کورٹ نے بھی ایکشن لیا اوراس کیس میں عدالت کا فیصلہ بھی موجود ہے‘۔
سینئر صحافی کا کہنا تھا کہ ‘سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ جو آڈیو یا ویڈیو ہے اس کو قابل قبول بنانے کے لیے کیا کیا شرائط ہونی چاہئیں، اس فیصلے میں 21 شرائط لکھی گئی ہیں، اس میں اہم ترین شرط ہے کہ آڈیو یا ویڈیو ٹیپ جس نے ریکارڈ کی اسے عدالت میں بتانا ہوگا کہ یہ میں نے ٹیپ کی اور کیوں کی ہے، عدالتی فیصلے کے مطابق کسی بھی ٹیپ کو قابل قبول بنانے کے لیے اس کا فارنزک بھی ضروری ہے، اس کی ٹرانسکرپشن کو عدالت میں پیش کرکے میچ کیا جائے گا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ٹیپس کے معاملے پر پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کے مؤقف میں کافی تضاد ہے، شہباز گل ٹیپ کو جعلی قرار دے رہے ہیں جب کہ شیریں مزاری کہہ رہی ہیں کہ یہ ٹیپ سکیور لائن سے ریکارڈ کی گئی ہے مگر شیریں مزاری کا مطالبہ جائز ہےکہ بتایا جائے یہ کس نے ٹیپ کی ہے‘۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ ’اس کے علاوہ بھی ویڈیو ٹیپس کے بارے میں سن رہے ہیں، میرا خیال ہے وہ سامنے نہیں آئیں گی کیونکہ وہ سامنے لائی بھی جائیں تو آپ ان کو ٹی وی اسکرین پر پلے نہیں کرسکتے، جیسے جج ارشد ملک کی ویڈیو ٹیپ کے خلاف کارروائی ہوگئی لیکن وہ ٹی وی پر دکھانےقابل نہیں تھی‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس طرح کی کچھ ٹیپس آسکتی ہیں، کچھ میں نے بھی دیکھی ہیں جو عمران خان کی نہیں پی ٹی آئی کے کچھ صاحبان کی تھیں، جب میں نے وہ دیکھیں تو افسوس ہوا اور میرا خیال ہے کہ وہ ٹی وی اسکرین پر نہیں چل سکتیں‘۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ ’یہ ٹیپس آسکتی ہیں لیکن ان کی بنیاد پر کارروائی کا آگے بڑھنا کافی مشکل ہوگا'۔