پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی حاجی گلبر خان نے وزیراعلیٰ کا اجلاس ملتوی کرنے کے حوالے سے درخواست جمع کرائی تھی۔درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ بیماری کے باعث گلگت میں موجود نہیں ہوں۔ اس لیے انتخاب کا حصہ نہیں بن سکتا۔
سپریم اپیلیٹ گلگت بلتستان کے حکم کے بعد وزیرِاعلیٰ کا انتخاب روک دیا گیا۔
عدالت کا جاری کیے گئے حکم میں کہنا تھا کہ سپیکر گلگت اسمبلی 72 گھنٹوں میں وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کے انتخاب کیلئے نیا شیڈول جمع کرائیں۔
دوسری جانب سیکریٹری اسمبلی کے مطابق آج 3 بجے نئے وزیرِ اعلیٰ کا انتخاب ہونا تھا۔ اس موقع پر پولیس کی طرف سے اسٹاف اور صحافیوں کو اسمبلی سے نکال دیا گیا تھا۔ وزیراعلیٰ کے انتخاب کی کوریج کیلئے مدعو صحافیوں کو بھی اسمبلی سے نکال دیا گیا تھا۔
پی ٹی آئی نے وزارت اعلیٰ کیلئے راجہ اعظم کو متفقہ طور پر پی ٹی آئی کا امیدوار نامزد کیا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے بھی راجہ اعظم کی نامزدگی کی منظوری دے دی ہے۔ راجہ اعظم خان کے علاوہ ، پیپلز پارٹی کے امجد حسین ایڈووکیٹ نے وزیر اعلیٰ کے لیے کاغذات جمع کرائے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے انجینئر محمد انور خان جبکہ جے یو آئی کے رحمت خالق نے بھی وزارت اعلیٰ کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔
پی ٹی آئی نے راجہ اعظم خان کو وزیر اعلیٰ کے لیے امیدوار نامزد کیا ہے، پیپلز پارٹی کے امجد حسین ایڈووکیٹ نے وزیر اعلیٰ کے لیے کاغذات جمع کرائے ہیں جبکہ مسلم لیگ ن کے انجینئر محمد انور خان کی جانب سے بھی وزارت اعلیٰ کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے ہیں۔
گلگت بلتستان اسمبلی 33 ارکان پر مشتمل ہے، نئے وزیرِ اعلیٰ کو کامیابی کے لیے 17 ووٹ درکار ہیں۔ تحریک انصاف کے 19 ارکان گلگت بلتستان اسمبلی کاحصہ ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے 4 ارکان، ن لیگ کے 3 ارکان، متحدہ وحدت المسلمین کے 3 ارکان گلگت بلتستان اسمبلی کا حصہ ہیں، 1 آزاد رکن، تحریکِ اسلامی اور جے یو آئی (ف) کا ایک ایک رکن بھی گلگت بلتستان اسمبلی کا حصہ ہے۔
وزیراعلیٰ انتخاب سے قبل ہی تحریک انصاف کا فارورڈ گروپ سامنے آگیا ہے۔ اس گروپ کی قیادت سابق وزیر صحت جی بی حاجی گلبر خان کر رہے ہیں جنہوں نے 7 سے 8 اراکین کی حمایت کا دعویٰ کیا ہے۔
وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید کی نا اہلی کے بعد نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب ہونا ہے تاہم اس معاملے پر وفاق میں حکومتی اتحادی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں بڑا اختلاف سامنے آیا ہے۔
پی پی ذرائع کے مطابق آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومت پیپلز پارٹی کو دینے پر اتفاق ہوا تھا لیکن اب جب جی بی میں حکومت سازی کا وقت آیا ہے تو ن لیگ نے یوٹرن لیتے ہوئے اپنا وزیراعلیٰ کا امیدوار نامزد کر دیا ہے جو کہ وعدہ خلافی ہے۔
ذرائع کا مزیدکہنا ہے کہ پیپلز پارٹی وزیراعلیٰ جی بی کا عہدہ پی ٹی آئی کے فارورڈ بلاک کو دینا چاہتی ہے ساتھ ہی سینیئر وزیر سمیت اہم وزارتیں بھی فارورڈ بلاک کو دینے کی تجویز دی ہے۔
خالد خورشید کی عدالت سے نااہلی کے بعد گلگت بلتستان میں بدلتی سیاسی صورتحال کے پیش نظر وفاقی حکومت متحرک ہوگئی ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے گلگت بلتستان کی سیاسی صورتحال پرتین رکنی کمیٹی بنا دی ہے جو وزیراعلیٰ خالد خورشید کی عدالت سےنااہلی کےبعد کی صورتحال پر سفارشات مرتب کرے گی۔
گزشتہ روز گلگت کی عدالت نے گلگت بلتستان خالد خورشید کو جعلی ڈگری کیس میں نااہل قرار دے دیا۔
جسٹس عنایت، جسٹس جوہر اور جسٹس مشتاق پر مشتمل تین رکنی لارجر بینچ نے روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت کی تھی۔ اس کیس میں ہائر ایجوکیشن کمیشن، جی بی بار کونسل اور جی بی حکومت سمیت 6 فریقین شامل تھے جب کہ سینئروکلا نے عدالت کی معاونت کی۔
خالد خورشید کے مقابلے میں الیکشن لڑنے والے پیپلز پارٹی کے عبدالحمید اور گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے سابق رکن اور مسلم لیگ ن کے سابق وزیر فرمان علی خان نے گزشتہ سال الیکشن کمیشن میں خالد خورشید کی تعلیمی اسناد کو چیلنچ کیا تھا جسے چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان راجہ شہباز خان نے سماعت کے لیے منطور کیا تھا۔ چیف الیکشن کمشنر نے وزیراعلیٰ کو نوٹس جاری کیا تھا۔ وزیراعلیٰ گلگت نے الیکشن کمیشن کے نوٹس کوعدالت میں چیلنج کیا تھا جس پر اعلیٰ عدلیہ نے الیکشن کمیشن کو مزید سماعت سے روک دیا تھا۔ چیف کورٹ کے چیف جسٹس نے تین ججز پر مشتمل لارجر بینچ تشکیل دیا تھا جس نے کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی تھی۔
عدالت کی جانب سے آج سماعت مکمل کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے وقفہ لیا گیا۔ بعد ازاں عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے وزیراعلیٰ جی بی خالد خورشید کو نااہل قرار دے د یا۔
وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کی ڈگری لندن کی تھی اور انہیں جی بی بار کونسل نے وکالت کا لائسنس جاری کیا تھا لیکن ان کی ڈگری کی تصدیق لندن کی یونیورسٹی کی جانب سے نہیں کی گئی تھی۔
واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کے رکن گلگت بلتستان اسمبلی غلام شہزاد آغا نے وزیراعلیٰ خالد خورشید کی ڈگری کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت سے آئین پاکستان کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت ان کی نااہلی کی استدعا کی ہے۔
درخواست گزار نے اپنے وکیل امجد حسین کے ذریعے مؤقف اختیار کیا کہ وزیراعلیٰ کی جمع کرائی گئی ڈگری کی لندن یونیورسٹی سے تصدیق نہیں ہوئی اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے اسے جعلی قرار دیا ہے۔
دوسری جانب وزیراعلی گلگت بلتستان خالد خورشید کے خلاف اپوزیشن اراکین نے تحریک عدم اعتماد جمع کرادی۔
وزیراعلیٰ خالد خورشید کے خلاف تحریک عدم اعتماد اپوزیشن کے 9 اراکین نے جمع کرائی تاکہ حکمران جماعت کی جانب سے اسمبلی تحلیل کرنے کا ممکنہ منصوبہ ناکام بنایا جاسکے۔
ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ خالد خورشید گلگت بلتستان اسمبلی تحلیل کرنے کے حوالے غور کررہے تھےجبکہ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کے خلاف چیف کورٹ میں جعلی ڈگری کیس میں نااہلی کی درخواست پر سماعت بھی جاری تھی جس کا فیصلہ سنا دیا گیا ہے۔