سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کو نواز شریف کے ساتھ ذاتی رنجش تھی۔ جسٹس عظمت سعید شیخ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملے ہوئے تھے اور پانامہ لیکس کیس کے یہی دو مرکزی کردار تھے۔ ایک جج جو اس وقت بھی حاضر سروس ہیں وہ بھی اس سازش میں شریک تھے اور ان سب نے مل کر نواز شریف کو نااہل قرار دیا۔ اسٹیبلشمنٹ ان کو سپورٹ کر رہی تھی۔ آئی ایس آئی کا ایک سیل بنا ہوا تھا جس میں بیٹھ کر لوگ کیس کی تیاری کرتے تھے۔ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم میں دو بریگیڈیئر شامل کیے گئے تھے۔ یہ پورا ایک منصوبہ تھا جس کے تحت نواز شریف کو نااہل کیا گیا تھا اور یہ بالکل غلط تھا، دھاندلی تھی اور دھونس تھی۔
میں نے نواز شریف سے پوچھا تھا کہ جب مقدمہ چل رہا تھا اور آپ سے جس طرح سے سوال جواب ہو رہے تھے تو لگ رہا تھا کہ جج آپ کو نہیں چھوڑیں گے مگر آپ بڑے پرامید نظر آ رہے تھے۔ آپ کو کون امید دلاتا تھا؟ نواز شریف نے جواب دیا تھا کہ میرا یہ خیال تھا کہ ججز تمام تر دباؤ کے باوجود میرے حق میں فیصلہ سنائیں گے۔ میں نے یہی سوال میاں نواز شریف کے وکیل سلمان اسلم بٹ سے پوچھا کہ سارے پاکستان کو نظر آ رہا تھا کہ آپ کیس ہار رہے ہیں مگر آپ مطمئن تھے، آپ کو کس بات پہ خوش فہمی تھی؟ تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ میں کیس کے سارے پوائنٹ جیت گیا تھا، کیلبری فونٹ پہ جیت گیا تھا، گھر کا مسئلہ حل کر لیا تھا، سارے دستاویزات مکمل کر لیے تھے اور اسی لئے انہوں نے آخری رات کو اقامے کا بہانہ بنا کر نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا۔
یاد رہے کہ دو روز قبل جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں میزبان حامد میر کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور ماہر قانون حامد خان نے کہا تھا کہ پانامہ لیکس کیس میں نواز شریف کو نااہل کرنے کا فیصلہ عدالتی فیصلے سے پہلے ہی ہو چکا تھا اور عدلیہ کو صرف فیصلہ سنانے کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔ نواز شریف سمجھتے تھے کہ وہ عدلیہ کو ہینڈل کر لیں گے مگر انہیں بعد میں احساس ہوا کہ ایسا نہیں ہو سکے گا کیونکہ معاملات ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے اور انہیں نااہل کرنے کا فیصلہ کہیں اور ہو چکا تھا۔
جیو نیوز کے پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ حامد خان کے پورے کریئر کو دیکھیں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ہمارے ملک کے بہت معتبر وکیل ہیں۔ حالات جیسے بھی رہے انہوں نے اپنے نظریات پر سمجھوتا نہیں کیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بہت زیادہ دباؤ کے باوجود اپنے جمہوری مؤقف سے نہیں ہٹے اور وکیلوں کی رہنمائی کرتے رہے۔ انہوں نے نواز شریف کی نااہلی سے متعلق جو بھی کہا ہے حرف بہ حرف سچ کہا ہے۔
واضح رہے کہ 28 جولائی 2017 کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ نے پانامہ لیکس کیس میں نااہل قرار دے دیا تھا۔
پانامہ لیکس میں نواز شریف کے خلاف جاری مقدمے میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ کی جانب سے یہ فیصلہ سنایا گیا تھا۔ پانامہ لیکس کیس کی سماعت کرنے والے بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ تھے جب کہ بنچ میں جسٹس اعجاز افضل، جسٹس گلزار احمد، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس عظمت سعید شیخ شامل تھے۔
20 اپریل کو بنچ نے اپنا ابتدائی فیصلہ سناتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں کے غیر ملکی اثاثوں کی مزید تحقیقات کے لئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیا تھا۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو اپنا کام مکمل کرنے کے لئے 60 روز کی مہلت دی گئی تھی جس کے بعد جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ 10 جولائی کو عدالت عظمٰی میں پیش کر دی تھی۔
بعد ازاں پانامہ کیس کے فیصلے پر عمل درآمد کی نگرانی کرنے والے سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے جے آئی ٹی کی رپورٹ پر 5 روز تک فریقین کے دلائل اور اعتراضات سننے کے بعد 21 جولائی کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جو 28 جولائی کو سنایا گیا تھا۔