اطلاعات کے مطابق سروسز ہسپتال میں ڈاکٹروں کی مبینہ غفلت سے جاں بحق ہونے والے مریض کےلواحقین نے ڈاکٹروں اورنرسوں پرتشدد کیا ،جس پر ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف نے سروسز ہسپتال کی ایمرجنسی بھی بند کر دی۔
واقعے کے بعد سروسز اسپتال کے ینگ ڈاکٹرز نرسیز پیرا میڈیکل سٹاف نے جیل روڈ مکمل بند کر دیں اس دوران پولیس کی بھاری نفری بھی بلا لی گئی جس کی موجودگی میں لواحقین ڈاکٹروں اور دیگر سٹاف کو گالی گلوچ دیتے رہے، رات گئے تک احتجاج جاری رہا ۔
جاں بحق ہونے والا 30 سالہ خالد سمن آباد کا رہائشی تھا5 روز قبل ٹریفک حادثہ ہونے پر ہسپتال داخل ہوا تھااس دوران اس کا علاج جاری تھا کہ اس کی موت واقع ہوگئی ،اس دوران 30سے زائد لواحقین نے ڈاکٹروں اور لیڈی ڈاکٹروں سمیت پیرامیڈیکل سٹاف کو تشدد کا نشانہ بنایا اورانھیں اپنے کمروں میں بند کرکے ان کے کمروں میں گھس کر انھیں مارا جس پر ینگ ڈاکٹرز نے احتجاج کی کال دی تو کچھ ہی دیر میں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کی بڑی تعداد موقع پر پہنچ گئی اس سے قبل لواحقین جو لاش جیل روڈ پر رکھ کر احتجاج کر رہے تھے وہ میت لیکر چلے گئے ۔
ایمرجنسی میں موجود دیگر مریض بھی بے یارو مددگار پڑے رہے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ مریض کا معمول کے مطابق علاج جاری تھا ،اس کی حالت تشویشناک تھی ،اس کی موت میں کسی ڈاکٹر کی کوئی لاپروائی یا غلطی نہیں ہے ،ینگ ڈاکٹرز نے کہا کہ جب تک تشدد کرنے والے افراد کو گرفتار نہیں کیا جاتا اس وقت تک احتجاج جاری رہے گا ،اس حوالے سے ڈی آئی جی آپریشنز ساجد کیانی نے کہا کہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی جیسے ہی پولیس کو درخواست موصول ہوگی اس کے مطابق کارروائی ہوگی،جبکہ مریض کے لواحقین کا کہنا ہے کہ ہمارے مریض کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی اس کی حالت مکمل ٹھیک تھی جیسے ہی اسے ایک اناڑی نے ٹیکا لگایا تو ہمارے مریض کی حالت نازک ہوئی اور اس نے تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔جس پر ہم نے احتجاج کیا تو ہمیں ہسپتال سے دھکے دیکر نکالا گیا جس سے یہ صورتحال پیدا ہوئی۔
دوسری جانب پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ سردار عثمان بزدار نے لاہور کے سروسز اسپتال میں ڈاکٹرز پر کیئے گئے تشدد کے واقعے کا نوٹس لے لیا۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے اس ضمن میں سیکریٹری صحت اور سی سی پی او لاہور سے رپورٹ طلب کر لی۔ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ سردار عثمان بزدار نے سی سی پی او لاہور کو ہدایت کی ہے کہ ڈاکٹروں پر تشدد کے واقعے کی تحقیقات کر کے رپورٹ وزیراعلیٰ آفس پیش کی جائے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ تشدد کے ذمے داروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے، ایسا افسوس ناک واقعہ کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔