ابوذر کے مطابق پولیس افسر نے ان کا شناختی کارڈ چیک کیا اور ساتھی اہلکاروں کو پنجابی میں کہا کہ ’اینوں گڈی وچ پاؤ‘ نوجوان استاد نے وجہ پوچھی تو پولیس افسر نے بدتمیزانہ لہجے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وجہ تھانے وچ جا کے دسنے آں‘ (وجہ تھانے میں جا کر بتاتے ہیں)۔
نوجوان استاد جو کہ تھیٹر آرٹسٹ بھی ہیں نے جواب دیا کہ آپ بغیر کسی وجہ کے مجھے لے کر نہیں جا سکتے۔ اس کے جواب میں پولیس افسر نے کہا کہ یہ بات صبح جج کو بتانا۔ پولیس افسر نے نوجوان استاد کے لباس کا تمسخر اڑاتے ہوئے بدتمیزانہ لہجے میں کہا کہ یہ کیا حلیہ ہے تمہارا؟ تمہارے بال کیوں بڑھے ہوئے ہیں۔
ابوذد کے مطابق پولیس نے ان کی مکمل تلاشی لی ،انکے بستے، اور کتابوں کی بھی تلاشی لی اور پھر زبردستی گاڑی میں بٹھا کر تھانے لے گئے۔
ابوذد نے اپنے سوشل میڈیا پر لکھا کہ تھانیدار کے ساتھ کھڑے دیگر سپاہیوں نے کہا کہ یہ ایک استاد ہے اسے چھوڑ دیں تاہم تھانیدار نے ان کو جواب دیا کہ میں نے جان بوجھ کر اسے زبردستی بٹھایا ہوا ہے ، اسے رات یہیں روکنا ہے اور اس کی حالت درست کرنی ہے۔
ابوذر نے تھانے پہنچنے تک اپنے ساتھ ہوا یہ سارا واقعہ پنجابی زبان میں لکھ کر سوشل میڈیا پر شئیر کر دیا۔ ان کی اس پوسٹ کے بعد علی الصبح ان کے کچھ وکیل دوست متعلقہ تھانے پہنچے اور انہوں نے ضمانت پر انہیں رہا کروایا۔
ابوذر نے اپنے ساتھ ہونے والے اس سلوک پر سوال کیا کہ کیا ہم زندگی اپنی مرضی کے مطابق نہیں گزار سکتے۔ ہم اپنی مرضی سے سڑک پر چل بھی نہیں سکتے؟ کیا ہم اپنی مرضی کے بال بھی نہیں رکھ سکتے۔ یا میرا جرم یہ ہے کہ میں ایک عام انسان ہوں؟ کیا آوارہ گردی صرف پیدل چلنے سے ہوتی ہے جو بڑی گاڑیوں میں نہیں ہوتی۔
نیا دور میڈیا نے تھانہ ماڈل ٹاؤن رابطہ کر کے پولیس کا بیانیہ جاننے کی کوشش کی تو متعلقہ افسر نے کہا کہ جس تھانیدار کی رات ڈیوٹی تھی وہ اب یہاں نہیں ہیں۔ تھانے کے اہلکار نے متعلقہ پولیس افسر کا فون نمبر دینے سمیت ان کی کسی بھی معلومات دینے سے انکار کر دیا۔
سوشل میڈیا صارفین نے ایک استاد کے ساتھ پیش آئے اس رویے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ استاد سے بدتمیزی سے بات کرنے اور انسانی حقوق کی خلاف وزری پر متعلقہ تھانیدار کے خلاف انکوائری کیا جائے اور نوجوان استاد سے معافی مانگی جائے،