تفصیلات کے مطابق شاہ محمود قریشی کے آبائی شہر ملتان میں ان کے حلقے کے ووٹرز ،سپورٹرز اور ان کے ساتھی ایم این ایز، ایم پی ایز کی جانب سے شہر بھر میں ان کے لئے ستائشی بینرز اور پینا فلیکسز آویزاں کئے گئے جن پر لکھا گیا کہ ’ہم ثانی صلاح الدین ایوبی کو فلسطین کا مقدمہ جیتنے پر سلام پیش کرتے ہیں‘۔
خیال رہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے دو اکتوبر 1187 کو یروشلم فتح کیا تھا جب دنیا کے 'مذہبی دارالحکومت' اور سب سے 'متنازع' سمجھے جانے والے شہر یروشلم میں تقریباً نو دہائیوں کے وقفے کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں ایک بار پھر مسلمانوں کی حکمرانی کا دور شروع ہوا تھا۔ تاہم وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی یروشلم کو فتح تو نہیں کر سکے اور نہ ہی وہ مسئلہ فلسطین کا کوئی مستقل حل تلاش کرنے میں کامیاب رہے تاہم اپنے بیانات کی وجہ سے انہیں پاکستان میں خوب سراہا گیا۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کو نہتے فلسطینیوں پر طاقت کے بے رحمانہ استعمال اور معصوم فلسطینی شہریوں، عورتوں اور بچوں کی شہادتوں پر تشویش سے آگاہ کیا تھا ۔ اقوام متحدہ میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ فلسطینیوں کے خلاف طاقت کے منظم اور بے دریغ استعمال کے نتیجے میں 250 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں بتائی جا رہی ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ میرے اس دورے کا مقصد جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس میں شرکت کے ذریعے نہتے مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنا اور عالمی برادری کی توجہ انسانی حقوق کی پامالیوں کی جانب مبذول کرانا ہے۔
دوسری جانب شاہ محمود قریشی نے کیبل نیوز نیٹ ورک(سی این این)کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل میڈیا میں اپنا اثر ورسوخ ہونے کے باوجود جنگ ہار رہا ہے۔
شاہ محمود قریشی کے اس ریمارکس پر سی این این کی خاتون اینکر نے پوچھاتھا کہ اس سے کیا مراد ہے؟جس پر جواب دیتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے پاس ایسے لوگ ہیں جو کہ میڈیا پر اثر انداز ہوتے ہیں ، شاہ محمود قریشی کے اس جواب کو اینکر نے یہودیوں کے خلاف ریمارکس سے تعبیر کیا۔پروگرم کے آخر میں اینکر نے ایک بار شاہ محمود قریشی سے درخواست کی کہ وہ یہودیوں کے خلاف ریمارکس نہ دیں جس پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ انہوں نے نہ تو یہودیوں کے خلاف ریمارکس دئیے ہیں اور نہ ہی وہ دیں گے۔
دوسری جانب پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے فلسطین، اسرائیل تنازع پر ہونے والے خصوصی اجلاس میں شرکت کرنے کے بعد جب پاکستان واپس پہنچے تو اُن کا پُرتپاک استقبال کیا گیا تھا اور حکومت نے ان کے بیانیے کو سیاسی طور پر استعمال کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔