وفاقی حکومت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے کالعدم قرار دی جانے والی عسکریت پسند تنظیموں کے اکاؤنٹس اور اثاثے منجمد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
وزارتِ خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے ملک میں فعال تمام کالعدم تنظیموں کے اثاثے تحویل میں لیے جائیں گے۔ انہوں نے ایک نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا:’’اب سے تمام کالعدم تنظیموں کے اثاثے حکومت کی تحویل میں ہوں گے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت ان تنظیموں کے فلاحی شعبہ جات اور ایمبولینسوں کو بھی تحویل میں لے گی۔
ترجمان وزارتِ خارجہ نے کہا:’’ان اقدامات کا مقصد سکیورٹی کونسل کی جانب سے دہشت گرد قرار دیے گئے اشخاص اور تنظیموں کے خلاف کارروائی عمل میں لانا ہے۔‘‘
یاد رہے کہ سلامتی کونسل کو مسلح طاقت کے استعمال کے بغیر امن و امان قائم کرنے کے لیے اقدامات کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ’’ گزشتہ کئی برسوں سے سلامتی کونسل مختلف طرح کی پابندیاں عائد کرتی آئی ہے جن میں سے نمایاں ترین اثاثے منجمد کرنا ہے اور ریاست پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اشخاص اور تنظیموں کو دہشت گرد قرار دیے جانے کے فوراً بعد ان کے اثاثے منجمد کرے یا انہیں تحویل میں لے۔‘‘
پاکستان سلامتی کونسل کے ایکٹ 1948ء کے تحت مذکورہ اقدامات کرنے کا پابند ہے۔
دریں اثناء، وزارتِ داخلہ کا قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں تمام صوبوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ وزارتِ داخلہ کے ترجمان کے مطابق تمام صوبائی حکومتوں کو کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائیاں تیز کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
یہ پیشرفت ان خبروں کے ایک روز بعد ہوئی ہے جن کے مطابق حکومت ملک میں عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف فیصلہ کن کریک ڈاؤن کرنے جا رہی ہے۔ وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چودھری کے مطابق، حکومت تمام عسکریت پسند گروہوں کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے قومی ایکشن پلان کا حوالہ بھی دیا جس پر تمام سیاسی فریقوں نے اتفاقِ رائے کیا تھا۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ 21 فروری کو ہونے والے اجلاس میں کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائیاں تیز کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور جماعت الدعوہ اور فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن پر دوبارہ پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ وزیراعظم عمران خان نے اس بارے میں کہا تھا کہ حکومت شدت پسندوں کے ہاتھوں یرغمال نہیں ہوگی۔