بدنما لٹکتی ہوئی تاروں اور بجلی کے کھمبوں نے تاریخی مکانوں اور حویلیوں کے خوبصورت مناظر کو برباد کر دیا تھا۔ سیاحوں کا وہاں جانا ممکن ہی نہیں تھا اور لاہور کا یہ اندرونی حصہ جسے والڈ سٹی کہا جاتا ہے اسے ہمیشہ ایک ایسی جگہ تصور کیا جاتا تھا جہاں بسنے والے لوگ کٹر اور سخت ذہنیت کے حامل ہیں، بدبودار گلیاں ہیں اور ٹریفک رش ہے اور شاہی مسجد اور قلعے کے علاوہ یہاں دیکھنے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ لاہور کے اس حصے یعنی والڈ سٹی نے ایک زمانے میں کئی لکھاریوں کی کہانیوں کو جنم دیا مصوروں کو مصوری کیلئے مناظر فراہم کیے اور حکمرانوں کو بادشاہت فراہم کی۔ لاہور 15ویں صدی میں ایک خوابوں کا شہر بن گیا جب سلطنت مغلیہ نے اسے اپنے دارلخلافوں میں شامل کر لیا۔ یہ وہ وقت تھا جب لاہور میں بڑی عمارتیں، اور یادگاریں تعمیر کی گئیں اور شہر کو جدت عطا کی گئی۔
لاہور شہر کو نئی شکل مغل بادشاہ اکبر نے عطا کی جس نے شہر کے گرد تیس فٹ لمبی حفاظتی دیوار تعمیر کی اور 12 دروازوں اور موری کی تعمیر بھی کی۔ موری کو بعد میں دروازے کی حیثیت دے دی گئی۔ لاہور تیرہ دروازوں پر مشتمل ایک دلکش شہر بن گیا۔ 1947 کے بعد شہر کی خوبصورتی کو برقرار نہ رکھا جا سکا اور لاتعداد تبدیلیوں اور اضافوں نے عظیم الشان ورثے کی بقا کو خطرے میں ڈال دیا۔ تاریخی ورثے کیلئے سب سے بڑا خطرہ تیزی سے پھیلتی تجارتی سرگرمیاں تھیں۔ عمارتیں اور یادگاریں تیزی سے ختم ہو رہی تھیں اور کوئی بھی اس ختم ہوتے ہوئے ورثے پر دھیان نہیں دے رہا تھا۔
بادشاہی راستے کی شاہی گزرگاہ بھی ایک فراموش کردہ جگہ تھی جو دہلی گیٹ کے اندرونی علاقے میں موجود تھی۔ شاہی گزرگاہ جہاں عظیم الشان تاریخی یادگاریں موجود ہیں وقت کی دھند میں کہیں کھو گئی تھی اور دہلی گیٹ عدم توجہ کے باعث اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تباہ ہوتا چلا گیا، شاہی حمام پر تقریباً پچاس سے زائد دکانیں ناجائز تجاوزات کی صورت میں قائم گئی، حویلیاں توڑ پھوڑ کا شکر تھیں۔ مسجد وزیر خان کے گرد تقریباً 78 دکانوں پر مشتمل تجاوزات کھڑی کر دی گئی تھیں جن کے پیچھے یہ مسجد چھپ سی گئی۔ مقامی لوگوں نے اندرونی لاہور اور حویلیوں سے نقل مکانی شروع کر دی اور یادگاریں ویران ہو گئیں۔ اس وقت ثقافتی ورثے سے پیار کرنے والوں اور تاریخ دانوں کو بھی خوف محسوس ہو رہا تھا کہ یہ مقام اپنی اصل شناخت اور پہچان کھو بیٹھے گا۔ سال 2012 میں پنجاب حکومت کو اس معاملے کی سنگینی کا ادراک ہوا اور اس نے والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا تاکہ اندرون لاہور شہر کے اس حصے کی تعمیر نو اور مرمت کا کام شروع کیا جا سکے۔ بالآخر اس نئے ادارے نے اندرون لاہور کے متعلق اپنے منصوبوں کو حتمی شکل دے دی اور شاہی گزرگاہ کو دوبارہ سے بحال کرنے کیلئے پہلے مقام کے طور پر چنا۔
یہ "بادشاہی گزرگاہ" یا شاہی گزرگاہ وہ راستہ ہے جو مغل بادشاہ اور شاہی خاندان دہلی سے لاہور قلعے تک سفر کیلئے استعمال کیا کرتے تھے۔ آپ اس منظر کا تصور کر سکتے ہیں کہ شاہی سواریاں دہلی گیٹ سے داخل ہو کر لاہور قلعے کی جانب رواں دواں ہیں اور لوگ بالکونیوں اور جھروکوں میں کھڑے ہوئے ہیں اور اپنے بادشاہ، ملکہ اور شاہی خاندان کی ایک جھلک دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے یہ خوبصورت منظر دیکھ رکھا تھا وہ ان کہانیوں کو دوسرے افراد کو سناتے تھے اور یہیں سے اس علاقے میں داستان گوئی کا سلسلہ عام ہوا۔ روایت کے مطابق بہت سی لڑکیوں کو شہزادوں سے محبت ہو گئی جبکہ نوجوان لڑکوں کو خوبصورت شہزادیاں یا کنیزیں بھاگ گئیں اور وہ انہیں ساری زندگی کھوجتے رہے۔ شاہی گزرگاہ ڈیڑھ کلومیٹر طویل راستہ ہے جو دہلی گیٹ سے لاہور کے عظیم الشان قلعے کی جانب مستی گیٹ سے ہو کر گزرتا ہے۔ اس راستے پر سب سے زیادہ دلکش مناظر ان تاریخی عمارتوں اور یادگاروں کے ہیں جو اس راہ پر قائم ہیں۔ یہاں بڑا دہلی گیٹ، شاندار شاہی حمام، مسجد وزیر خان، تاریخی حویلیاں، سنہری مسجد، مریم زمانی مسجد اور لاہور قلعہ دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایشیا کی سب سے بڑی کپڑوں کی مارکیٹ بھی یہیں ہے۔
مختصر یہ کہ آپ جیسے ہی شاہی گزرگاہ پر قدم رکھتے ہیں تو آپ مسحور کن جگہوں سے متاثر ہو کر ایک مسحور کن کیفیت میں چلے جاتے ہیں۔ شاہی گزرگاہ لاہور والڈ سٹی اتھارٹی نے آغا خان کلچر سروسز کے اشتراک سے انتہائی محنت سے کام کرتے ہوئے آخر کار شاہی گزرگاہ کو اس کی اصل حالت میں بحال کر دیا۔ یہ کام مختلف مرحلوں میں انجام پایا۔ پہلے مرحلے میں دہلی گیٹ سے لے کر کوتوالی چوک کے رستے کو 2014 میں بحال کیا گیا اور 2017 میں دوسرے مرحلے میں چوک کوتوالی سے مستی گیٹ تک کے راستے کو بحال کیا گیا۔ جو کام یہاں کیا گیا اس میں تعمیرات کی بہتری، 99 کے قریب محلوں کی۔ مرمت 1500 گھروں اور حویلیوں کی مرمت شامل ہیں۔
گلی کی لمبائی 1.6 کلو میٹر تھی۔ بدنما لٹکتی ہوئی تاروں، سوئی گیس کے میٹروں اور ٹیلیفون کی تاروں کو زیر زمین منتقل کیا گیا۔ یہ کام پہلی دفعہ کیے گئے اور اس طرح کی تعمیراتی تبدیلیاں ابھی تک جدید لاہور میں بھی نہیں کی گئیں۔ مکانوں اور حویلیوں کے خستہ حال سامنے کے حصوں کو دوبارہ مرمت کر کے درست کیا گیا۔ پانی، صحت و صفائی اور گند نکاسی کے نظام کو بہتر بنانے کیلئے کھلی نالیوں اور گٹروں کو بند کر دیا گیا تاکہ لوگ انہیں نہ دیکھ پائیں۔ دو سو سال پرانے گند نکاسی کے پائپوں کو علیحدہ کیا گیا اور ان کی مرمت کی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمارتوں کے بیرونی حصوں کی مرمت کے دوران اسی قسم کے سامان کا استعمال کیا گیا جو ان عمارتوں کو بناتے وقت استعمال ہوا تھا۔ اس میں چھوٹی اینٹیں اور چونے کے پتھر شامل ہیں۔
شاہی حمام سے تجاوزات کا خاتمہ کر دیا گیا اور بعد میں اسے بھی محفوظ کر لیا گیا۔ اور مسجد وزیر خان سے بھی تجاوزات ہٹا کر اسے محفوظ کر لیا گیا۔ یہ اچھی بات ہے کہ لاہور شہر کے اس حصے کے رہائشی اب خوش ہیں اور انہیں تمام جدید تعمیراتی خدمات مہیا کر دی گئی ہیں لیکن خاموشی کے ساتھ جگہ کو صاف رکھنے کیلئے کوڑے اور کچرے کو تلف کرنے کا منصوبہ بھی نافذ العمل بنایا گیا اور اب آپ کو یہاں گلیوں یا مرکزی راستے پر کوڑے یا کچرے کے ڈھیر دکھائی نہیں دیں گے۔ گزرگاہ کی تعمیر نو کے بعد سیاحوں نے شہر کے اس حصے کا رخ کرنا شروع کر دیا اور پہلی مرتبہ لاہور کے والڈ سٹی کے حصے کو ایک برانڈ بنا کر اس کی مارکیٹنگ کرنے کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ سیاحوں نے آنے کا سلسلہ شروع کیا اور پہلی دفعہ گلی محلوں کی سیاحت شروع ہوئی۔
اس مرتے ہوئے تاریخی ورثے کو ایک نئی زندگی عطا کی گئی اور مجھے امید ہے کہ بہت جلد ہی شہر کے دوسرے حصوں کو بھی انہی بنیادوں پر دوبارہ سے استوار کیا جائے گا۔