خلیل الرحمان قمر پر پابندی، ماہرہ خان، اور سرمد کھوسٹ کا لطیفہ

01:10 PM, 5 Mar, 2020

علی وارثی
چند روز قبل سرمد کھوسٹ نے ٹوئیٹ کیا کہ میں کئی دن سے یہ بات کہنا چاہتا تھا لیکن کہہ نہیں پا رہا تھا، لہٰذا آج میں آپ کو ایک لطیفہ سناتا ہوں۔ ’فلمی اور ٹی وی برادری‘۔ بس یہی ہے لطیفہ۔
بات گہری تھی۔ سب کی سمجھ میں شاید نہ آئی ہو۔ اس لئے کھول کر بیان کرتے ہیں۔ چند ماہ قبل ایک مارننگ شو کے دوران مایہ ناز اداکار فردوس جمال نے فیصل قریشی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ماہرہ خان کوئی خاص اداکارہ نہیں ہیں، اور ان کی عمر اب جتنی ہو گئی ہے، انہیں ہیروئن کے نہیں، ماں کے کردار نبھانے چاہئیں۔

اس پر سوشل میڈیا پر خوب ہاہاکار مچی۔ مچنی بھی چاہیے تھی۔ فردوس جمال کی ماہرہ خان کی اداکاری سے متعلق کچھ بھی رائے ہو، وہ دینے کا حق رکھتے ہیں لیکن آج کے دور میں لوگوں کو عمر کے طعنے دینا انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ فردوس جمال صاحب کے دور میں شاید ایسا نہ ہوگا، انہوں نے جو کہا وہ غلط تھا۔ اس پر محترمہ سلطانہ صدیقی صاحبہ کے چینل ہم ٹی وی نے اعلان کیا کہ آج کے بعد فردوس جمال ہم ٹی وی کے کسی پراجیکٹ کا حصہ نہیں ہوں گے۔

یہ ردعمل انتہائی اور غیر ضروری تھا۔ لیکن کیونکہ اس کا نشانہ ایک بزرگ اداکار بنے تھے جن کے نام سے آج کے دور میں ’ریٹنگز‘ نہیں آتیں، اس لئے ان کی زندگی بھر کا سرمایہ، ان کا فن ایک طرف رکھتے ہوئے، انڈسٹری کی ایک طاقتور شخصیت نے انڈسٹری کی ایک اور طاقتور شخصیت کو خوش کرنے کے لئے فردوس جمال پر پابندی لگانے کا فیصلہ کر لیا۔ چینل نے اس فیصلے کی وجہ یہ بتائی کہ فردوس جمال کا تبصرہ sexist تھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’دو ٹکے کی عورت‘ جیسے عظیم، یادگار، ’iconic‘ ڈائیلاگز لکھنے والے خلیل الرحمان قمر صاحب نے ایک خاتون کو لائیو ٹی وی پر غلیظ گالیوں سے نوازا ہے۔ اکا دکا فنکاروں کو چھوڑ کر کسی کو یہ توفیق تک نہیں ہوئی کہ خلیل الرحمان کو نہ سہی، ان کے ان جملوں کو ہی ’دو ٹکے کا‘ کہہ دیتا۔ جس کی یہاں تذلیل ہوئی ہے، وہ بھی ایک عورت ہی ہے۔ اس کے لئے سلطانہ صدیقی جیسی طاقتور شخصیات ڈھال کیوں نہیں بنتیں؟ کیا کسی ٹی وی چینل کی جانب سے ابھی تک یہ اعلان کیا گیا ہے کہ آج کے بعد خلیل الرحمان قمر ہمارے کسی پراجیکٹ کا حصہ نہیں ہوں گے؟ کیا کسی نے یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ اس کے چینل پر ’دو ٹکے کی عورت‘ جیسا پھکّڑپن نہیں دکھایا جائے گا؟جواب ہے، نہیں۔ ایسا بالکل نہیں ہوا۔ اور نہ ہی ایسا ہونے کا کوئی امکان ہے۔

فردوس جمال کے خلاف یہ فیصلہ لیا جا سکتا تھا کیونکہ وہ اپنا وقت گزار چکے ہیں، آج ان کے نہیں ماہرہ خان کے نام سے ریٹنگز آتی ہیں۔ اور خلیل الرحمان قمر کے ڈرامے بھی ہماری قوم کی تماش بین سوچ کی تسکین کے لئے بہترین خوراک ہیں۔ وہ اس معاشرے کو جانتے ہیں۔ نہ صرف جانتے ہیں، ان کا ہاتھ قوم کی نبض پر ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ وہ اس کے آئینہ دار ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ وہ ہمارے اجتماعی شعور کو کتنا بہتر سمجھتے ہیں، اس کا اندازہ ان کے حالیہ ڈرامے کے پلاٹ سے لگایا جا سکتا ہے۔

ایک بے بس و لاچار پیار کرنے والے شوہر کو پیسے کے لئے چھوڑ کر جاتی عورت سے کس کو نفرت نہیں ہوگی؟ یہ ڈرامہ اس قوم کا پسندیدہ ڈرامہ تھا۔ کسی نے یہ نہیں سوچا کہ ایسا پیار کرنے والا شوہر ہوتا کہاں ہے جو بچے کو بھی تیار کر دے، کھانا بھی بنا کے دے، بیوی بچوں کو باہر بھی لے کر جائے، اور تو اور دفتر سے خود بیگم کو فون کر کے پوچھے کہ کیا کر رہی ہو؟

اپنی غربت اور کسمپرسی کے باوجود دانش اس معاشرے کی ہر عورت کے خوابوں کا شہزادہ تھا۔ کیونکہ ایسے شہزادے خوابوں، خیالوں اور خلیل الرحمان قمر کے ڈراموں میں ہی ملتے ہیں۔ اور ہمارے چینلز یہی دکھا کر خوش ہیں۔ عورت دکھائیں گے تو روتی، جھیکتی، یتیم مگر مٹکے جیسی آنکھوں والی لڑکی ہیروئن ہوگی اور جو لڑکی آپ کو ڈرامے میں ہلکی سی بھی خودمختار نظر آئے، سمجھ جائیں یہی ولن ہے۔
عورت مظلوم دکھا کر بھی ریٹنگز، مرد کو مظلوم دکھا کر بھی ریٹنگز۔

فردوس جمال نے ریٹنگز والی ہیروئن کے خلاف نازیبا کلمات ادا کیے تو چینل feminist بن گیا، خلیل الرحمان قمر نے گالی دی تو گونگا۔ کیونکہ ماہرہ خان سے بھی ریٹنگز آتی ہیں، اور خلیل الرحمان قمر بھی کون عورت ہوتی ہے اور کون عورت نہیں ہوتی جیسی مہمل جملے بازی کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ ٹی وی پر بیٹھ کر غلام محی الدین کے انداز میں ڈائیلاگ بھی بول لیتے ہیں۔ ان پر پابندی نہیں لگائی جائے گی۔ کیونکہ یہ فلمی اور ٹی وی برادری، سرمد کھوسٹ کے الفاظ میں، ایک لطیفہ ہے
مزیدخبریں