یہ کنفیوژن کیوں پیدا ہوئی؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ’ عورت مارچ‘ کو لے کر حامیوں اور مخالفین کی لفظی جنگ پہلے صرف سوشل میڈیا پر ہوا کرتی تھی، لیکن عورت مارچ 20 ٹوئنٹی کا میدان اب صرف سوشل میڈیا ہی نہیں رہا بلکہ الیکٹرونک میڈیا پر بھی میدان سج چکا ہے۔
عورت مارچ کے مخالفین کی جانب سے معروف لکھاری خلیل الرحمان قمر جارحانہ انداز میں کپتان اننگز کھیل رہے ہیں جبکہ دفاعی ٹیم میں تقریباً تمام میڈیا ہاؤسز اور ان کے اینکرز شامل ہیں۔
اس کھیل کا آغاز تو ’میرے پاس تم ہو‘ سے ہو چکا تھا لیکن اب یہ مقابلہ دلچسپ مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ نیو ٹی وی پر پروگرام اینکر اور پروڈیوسر کی ’ریٹنگ صحافت‘ کی تکنیک سے ماروی سرمد اور خلیل الرحمان کے درمیان جو لفظی گولہ باری ہوئی ہے اس کے بعد سے سوشل میڈیا پر صرف ’ عورت مارچ‘ کا بول بالا ہے جبکہ ’پی ایس ایل‘ بری طرح سے پٹ گیا ہے۔ اب عوام کو یہ فیصلہ کرنے میں قدرے آسانی ہو رہی ہے کہ کھیلوں کا چینل لگائیں یا نیوز چینل۔
عوام کو فیصلہ سازی کے اس مرحلے میں مزید آسانی فراہم کرنے کے لیے ’میرے اینکر‘ کمنٹری باکس میں نمودار ہوئے اور بہتی گنگا میں صرف ہاتھ دھونے کی کوشش نہیں کی بلکہ پوری ڈبکی لگائی۔ جی منصور علی خان!
موصوف نے خلیل الرحمان قمر کو مدعو کیا اور مقابلے پر ڈاکٹر عامر لیاقت کو بٹھایا۔ اس بار جوڑ تو برابر کا تھا لیکن خلیل الرحمان قمر نے محتاط اننگز کھیلی اور ڈاکٹر عامر لیاقت کے تمام باؤنسرز کو چھوڑنے اور یارکرز کو محض روکنے پر ہی اکتفا کیا۔ کھیل اس وقت بگڑا جب خلیل الرحمان قمر نے مہمانوں کو چھوڑ کر اپنا رُخ اینکر کی جانب کیا۔
خیر! جو ہو گیا، جو ہو رہا ہے اور جو ہو گا۔ اس سب میں الیکٹرونک میڈیا کا کردار سوشل میڈیا سے مختلف ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔ جو زبان سوشل میڈیا پر بولی جاتی ہے وہی چینلز پر بھی بولی جا رہی ہے۔ بہتر تو یہ تھا کہ چینلز اس حساس موضوع پر کچھ تعمیری مباحثے کرواتے لیکن کیوں بھائی! ایسا کیوں کریں؟ جواب صاف ہے کہ ریٹنگ فارمولا اس سے متاثر ہوتا ہے۔ جو ہم کرنے کو تیار نہیں۔
مختصر یہ کہ نیوز چینلز کا کردار خلیل الرحمان کی گالیوں کی طرح شرمناک ہے۔