ذرائع کے مطابق اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنی اعلیٰ قیادت پر دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لئے جوابی حکمت عملی اور لائحہ عمل طے کرلیا ہے۔ یہ حکمت عملی پارٹی کے سینئر نائب صدر، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور نائب صدر مریم نواز کی حال ہی میں جاتی عمرہ میں ہونے والی ملاقات میں مرتب کی گئی جس میں طے پایا ہے کہ نوُ ن لیگ کی اس ’جوابی دباؤ مہم‘ کو شاہد خاقان عباسی لیڈ کریں گے جبکہ پارٹی کی ترجمان مریم اورنگزیب ان کے ہمراہ ہوں گی۔
ذرائع کے مطابق اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کی طرف سے مسلم لیگ (نون) اور اس کی اعلیٰ قیادت یعنی شریف فیملی پر دباؤ کی جو نئی مہم شروع کی گئی ہے جس کے تحت شریف برادران کے خلاف برطانوی حکومت سے باضابطہ رابطوں کےعلاوہ شریف فیملی کے خلاف نئے مقدمات بنانے اور پہلے سے قائم مقدمات کو آگے بڑھانے جیسے اقدامات شامل ہیں، اس کے مقابلے میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھانے کی غرض سے مؤثر اور نتیجہ خیز سیاسی رابطوں کی ایک بھرپور مہم فوری طور پر شروع کی جا رہی ہے۔
اس ضمن میں ترتیب دیئے گئے لائحۂ عمل کے تحت نہ صرف پیپلز پارٹی ، جے یو آئی (ف) اور اے این پی جیسی ہم خیال سیاسی قوتوں کے ساتھ رابطے کئے جائیں گے بلکہ حکومت کی اتحادی جماعتوں اور حکمران پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتوں میں موجود بعض شخصیات کے ساتھ انفرادی سطح پر بھی ملاقاتیں کی جائیں گی تاکہ انہیں ملک میں سیاسی انتشار اور نفرت کی سیاست کے خلاف کردار ادا کرنے پر قائل کیا جاسکے۔
اس سلسلے میں ایم کیو ایم کی قیادت کے علاوہ ق لیگ کی قیادت یعنی چوہدری برادران، بی این پی (مینگل) کے سربراہ اختر مینگل اور جی ڈی اے کی قیادت سے بھی رابطہ کیا جائے گا جبکہ دوسرے مرحلے میں پی ٹی آئی سمیت تمام اھم سیاسی و پارلیمانی قوتوں سے تعلق رکھنے والی بعض شخصیات کے ساتھ سابق وزیراعظم انفرادی ملاقاتیں کریں گے۔
ذرائع کے مطابق شاہد خاقان عباسی حال ہی میں پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ (ق) سے جا ملنے والے اپنے ’باغی‘ ارکان سے بھی ’مذاکرات‘ کریں گے جبکہ اس کے جواب میں حکمران اتحاد کی جماعتوں کے اراکین کو توڑنے کی کوششیں بھی شروع کر دی گئی ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز لیگ مولانا فضل الرحمن کی طرح موجودہ سیٹ اپ کے خلاف کوئی احتجاجی تحریک چلانے کے حق میں نہیں اور اس کا اصل ہدف موجودہ سیٹ اپ کی طرف سے اپنی اعلیٰ قیادت کے خلاف بڑھائے جانے والے دباؤ کا مقابلہ کرنا ہے، البتہ اسی ’جوابی دباؤ مہم‘ کے نتیجے میں موجودہ سیٹ اپ، بالخصُوص مقتدر حلقوں کو نئے الیکشن کے لئے مجبور کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی تاکہ ملک میں محاذ آرائی کی سیاست اور انتشار کے ماحول کا خاتمہ اور معاشی و سیاسی استحکام کی راہ ہموار کی جا سکے۔