ذرائع کے مطابق اس ملاقات میں انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی موجود تھے۔
اس قسم کی ملاقات کے بعد وزیر اعظم کے دفتر سے عموماً پریس ریلیز جاری کی جاتی ہے لیکن کل کی ملاقات کے بعد کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ اس سلسے میں پسِ پردہ بات کرتے ہوئے ایک عہدیدار نے بتایا کہ یہ اجلاس 'داخلی اور خارجی صورتحال' کا جائزہ لینے کے لیے منعقد ہوا تھا۔
خیال رہے کہ اس فارمیٹ کے تحت وزیراعظم عمران خان، آرمی چیف اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی کی گزشتہ چند ماہ میں 5 ایسی ملاقاتیں ہوچکی ہیں جو منظر عام پر آئی تھیں۔
تاہم لوگوں نے فوری طور پر اس ملاقات کو سینیٹ انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی صورتحال سے جوڑ دیا جس میں حکمراں جماعت کے امیدوار حفیظ شیخ اپوزیشن امیدوار یوسف رضا گیلانی سے شکست کھا گئے تھے۔
اس غیر متوقع شکست نے وزیر اعظم عمران خان کو قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ وزیراعظم نے اس سلسلے میں اپنے اتحادیوں اور پارٹی رہنماؤں سے علیحدہ علیحدہ مشاورت بھی کی۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے ایک پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید کو اس موقع پر وزیراعظم سے ملاقات نہیں کرنی چاہیے تھی کیوں کہ اس سے غلط اشارہ ملا۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ اس موڑ پر اس ملاقات سے اچھی تصویر نہیں گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'اداروں' کو وزیراعظم عمران خان کی حمایت ختم کرنی چاہیے اگر انہوں نے اب تک نہیں کی اور انہیں اپنے آپ کو آئین و قانون تک محدود رکھنا چاہیے۔