1۔ تمام حوالوں سے یہ تحریکِ عدم اعتماد تقریباً تیار ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ تحریر کو حتمی شکل دی جا رہی ہے اور مطلوبہ دستخط حاصل کیے جا رہے ہیں۔ اپوزیشن میں معلومات رکھنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ تحریک اگلے ہفتے کے شروع میں داخل کر دی جائے گی۔ اب تک کا منصوبہ یہی ہے، اگر ویک اینڈ پر کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ہو جاتا۔
2۔ "ہمارے پاس تعداد مکمل ہے" اپوزیشن اعتماد کے ساتھ کہہ رہی ہے۔ اس کا اصل میں مطلب کیا ہے؟ اپوزیشن کی اصل تعداد 163 ہے لیکن اس میں دو ارکان کی کمی ہو سکتی ہے۔ ایم این اے علی وزیر تاحال جیل میں ہیں اور شاید ووٹ نہ دے سکیں۔ PPP کے ایک رکن قانونی وجوہات کی بنا پر باہر ہیں اور حالات انہیں واپسی کی اجازت نہیں دیتے (اگر کوئی بہت ہی غیر متوقع طریقہ نہ نکال لیا گیا)۔ لہٰذا وزیر اعظم عمران خان کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے لئے اپوزیشن کو ووٹنگ والے دن 9 سے 11 مزید لوگوں کی ضرورت ہوگی۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اس سے زیادہ ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ انہیں تعداد پوری کرنے کے لئے حکومتی اتحادیوں MQM، PMLQ، GDA اور BAP کی ضرورت نہیں ہے۔ یعنی ان کے پاس PTI کے اندر سے لوگ موجود ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر اتحادیوں میں سے کوئی ساتھ آ گیا تو یہ بونس ہوگا۔
3۔ لیکن PTI سے لوگ کیسے ان کے ساتھ آ گئے جو پارٹی چھوڑنے کے لئے بھی تیار ہیں؟ ایسا لگتا ہے، بقول ذرائع کے، کہ اپوزیشن نے ان PTI ارکان کے ساتھ ایک ڈیل کی ہے۔ انہوں نے PMLN سے ٹکٹوں کا تقاضا کیا ہے کیونکہ ان کے نزدیک PTI کا ٹکٹ پنجاب میں جیت نہیں سکتا۔ PMLN نے اپنا ہوم ورک مکمل کر لیا ہے اور ان PTI ارکان کو متعلقہ حلقوں میں جگہ دے دی گئی ہے۔ ان حلقوں میں PMN کے اپنے امیدوار پارٹی کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں اور ان کو انفرادی طور پر کچھ مراعات کے وعدے کیے گئے ہیں۔ ان ذرائع کے مطابق ڈیل یہاں بھی ہو چکی ہے۔
4۔ امپائر نیوٹرل ہے۔ اپوزیشن کا اب تک ماننا یہی ہے۔ اسی لئے اپوزیشن کو بھی حوصلہ ہوا کہ وہ آگے بڑھ کر تعداد پوری کرنے کے عمل کو چلائے – جس میں فون کالز کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ حکومتی اتحادی اب تک اپوزیشن کی طرف نہیں بڑھے ہیں لیکن PDM رہنماؤں کو یقین ہے کہ جب وہ دیکھیں گے کہ حکومت جا رہی ہے، اپوزیشن کی نمبر گیم پوری ہے اور غیر جانبداری بھی برقرار ہے تو ان میں سے کچھ ضرور ٹوٹیں گے۔
5۔ تو پھر تحریکِ عدم اعتماد لانے میں دیر کس بات کی ہے؟ اپوزیشن کے کچھ حصوں میں شکست کا خوف اب بھی موجود ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ انہیں پتہ ہے نمبر ان کے پاس ہیں لیکن اگر موقع پر یہ نہ رہے تو؟ اگر یہ نمبر خاموشی سے حکومت کی طرف چل پڑے تو؟ اگر اس سب میں کوئی جال، کوئی دھوکا ہوا تو؟ کیا دوسری طرف سے اپنے کوئی مقاصد حاصل کرنے کے لئے دھوکا دیا جا رہا ہے؟ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اپوزیشن کچھ زیادہ محفوظ ہونا چاہتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ وہ مطلوبہ 9 سے 11 افراد سے کہیں زیادہ لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا چاہتے ہیں تاکہ اگر ان میں سے کچھ کم بھی ہو جائیں تو بھی 172 کا جادوئی ہندسہ عبور کرنے میں مشکل پیش نہ آئے۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ وہ خیبر پختونخوا سے کچھ PTI ارکان کو اپنی طرف لا سکتے ہیں جب کہ PPP سندھ میں ایسی ہی کوششوں میں مصروف ہے۔ آصف زرداری کا ماننا ہے کہ اگر سب کچھ پلان کے مطابق ہوا تو یہ تعداد 190 تک پہنچ سکتی ہے۔ یہ ایک مشکل ہدف ہے لیکن اس کے لئے کوششیں کی جا رہی ہیں۔
6۔ کیا حکومت کو پتہ ہے کہ اس کے کون سے ارکان اپوزیشن کی طرف جا سکتے ہیں؟ ہاں، انہیں اندازہ ہے۔ ان ارکان کے درمیان رابطے خاموشی سے جاری رہے ہیں لیکن اتنی خاموشی سے بھی نہیں کہ حکومتِ وقت اپنے تمام تر وسائل کے باوجود ان کا پتہ نہ لگا سکے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو ابھی فیصلہ نہیں کر سکے ہیں اور اپنے آپشنز پر غور کر رہے ہیں لیکن اپوزیشن کا کہنا ہے کہ وہ ان لوگوں کو نہیں گن رہی جن کو ابھی تک کوئی کنفیوژن ہے۔ ایک باخبر ذریعے کا کہنا ہے کہ ایک حکومتی رکن ایک صاحب کی بیٹھک میں آئے اور وہاں کمرے میں موجود لوگ دعویٰ کر رہے تھے کہ حکومت بہت مضبوط ہے۔ جب میزبان ان لوگوں کو گاڑی تک چھوڑنے کے لئے آئے تو ان صاحب سے پوچھا کہ وہ اپوزیشن سے PMLN کے ٹکٹ کے لئے کوئی بات کیوں نہیں کرتے، اگر وہ چاہیں تو میزبان ان کی مدد کرنے کے لئے بھی تیار تھے۔ اس رکن نے بغیر ایک لمحے کے تامل کے کہا: جی پلیز۔
7۔ اپوزیشن میں اس تمام تر اعتماد کے باوجود کچھ ابہام ہیں جن سے یہ اب تک جھوجھ رہی ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ باقی تمام فیصلوں کو بعد پر چھوڑتے ہوئے اس وقت اپوزیشن کو صرف عمران خان کو باہر نکالنے پر توجہ دینی چاہیے۔ لیکن ان میں سے کچھ معاملات پر توجہ دی جا رہی ہے۔
8۔ کیا وزیر اعظم کے ہٹائے جانے کی صورت میں فوری انتخابات ہونے چاہئیں؟ اپوزیشن کا اب دعویٰ ہے کہ تمام جماعتیں متفق ہیں لیکن ابھی بھی کچھ ابہام ہے کہ یہ فیصلہ ہو چکا ہے یا اس پر بحث جاری ہے۔ ایک آپشن یہ ہے کہ قومی اسمبلی کو تحلیل کر دیا جائے جب کہ صوبائی اسمبلیوں کو ایسے ہی چلنے دیا جائے چہ جائیکہ وہ خود سے گر جائیں۔
9۔ کیا اپوزیشن کو پہلے اسد قیصر کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانی چاہیے یا سیدھے وزیر اعظم کے خلاف؟ سپیکر کے پاس بے حساب اختیارات ہیں اور وہ وزیر اعظم کے خلاف کسی بھی تحریک کو سبوتاژ کر سکتے ہیں۔ وہ ان اختیارات کو استعمال کر کے اسمبلی کے اجلاس کو مؤخر بھی کر سکتے ہیں۔ اپوزیشن کے قانونی ماہرین ان معاملات پر غور کر رہے ہیں تاکہ ایک واضح تصویر سامنے آ سکے۔ وہ کوئی سوراخ کھلا نہیں چھوڑنا چاہتے۔ ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کو دیکھنے میں وقت لگ رہا ہے۔
10۔ وزیر اعظم عمران خان ایک فائٹر ہیں۔ کھیل آخری بال تک جاری رہے گا۔
فہد حسین کا یہ مضمون ڈان اخبار میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔