لندن کے میئر صادق خان کا کہنا ہے کہ انہیں پاکستانی اور مسلمان ہونےکی وجہ سے نشانہ بنایا جارہا ہے اور 2016 میں زیک گولڈ سمتھ نے ان کے خلاف اسلاموفوبک حملوں کی بنیاد رکھی۔
ٹوری پارٹی کے سینئر ممبر کی جانب سے انتہا پسند بیانات دیے گئے اور الزام عائد کیا گیا ہے کہ صادق خان انتہا پسند مسلمان کنٹرول کرتے ہیں
میئر لندن نے کہا کہ یہ انتہائی افسوس کی بات ہے اور کافی خطرناک بھی ہے کہ کنزرویٹو پارٹی کانسپریسی تھیوریز کا بڑھاوا دے رہی ہیں۔ اسلام کے متعلق یہ تمام یہ غیر منصفانہ سچائیاں ہیں۔ اگر میں پاکستانی اور مسلمان نہ ہوتا تو یہ سب باتیں کبھی نہ کہی جاتیں۔ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ مسلمانوں نے لندن پرقبضہ کر لیا ہے۔
صادق خان نے کہا کہ لندنستان اور مسلم سلیپر سیل جیسے الفاظ کا استعمال خطرناک ہے۔ ایسے الفاظ کے استعمال سے غیر مسلم مسلمانوں سے ڈریں گے۔مسلمان معاشرے کا حصہ ہیں وہ معاشرے میں قبولیت کے لیے اورکیا کریں۔ ہم زبان سیکھتے ہیں۔ ہم کام کرتے ہیں۔ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ہمیں خود سے سوال کرنا چاہیے کہ ہم قبولیت کے لیے اورکیا کریں۔ رشی سونک اور ان کی کابینہ مجھ پر الزامات لگانے والے کو نسل پرست کہنے سے خوفزدہ ہیں۔انہیں چاہیے کہ وہ بولیں کہ یہ اسلاموفوبک ہے، اینٹی مسلم ہے، نسل پرستانہ ہے۔ رشی سونک اور دیگر اسلامو فوبک کا لفظ استعمال ہی نہیں کرتے اور وہ ڈر رہے ہیں۔ لیکن جب ہم کسی یہودی سے متعلق یہ بات کرتے ہیں کہ یہ غلط ہو رہا ہے اینٹی سمیٹزم ہے، کسی عورت کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو ہم مذمت کرتےہیں کہ یہ سیکسسٹ ہے، میسوجنسٹ ہے لیکن مسلمانوں کے خلاف بات ہوتی ہے تو کوئی کچھ نہیں کہتا۔ لیکن اگر کوئی پاکستانی مسلمان کوئی غلط کام کرتا ہے تو اس کو کہتے ہیں کہ اس شخص کا فعل نسل پرست، اینٹی اسلامک اور اسلاموفوبک تھا۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
سوال کیا گیا کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کو اسلاموفوبیہ نہیں کہتے اس کی کیا وجہ ہے؟ اس پر صادق خان نے کہا کہ لی انڈرسن نے اسلامو فوبک سلر کیا تھا (اسلام کے خلاف گندگی پھیلائی)، لیکن رشی سونک اور ان کی کابینہ اس کے لیے اسلاموفوبیہ کا لفظ ہی استعمال نہیں کر سکتے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ دوہرا معیار کیوں ہے۔ آپ یہ بھی تو کہہ سکتے ہیں کہ یہ اینٹی مسلم ہے یا نسل پرستی ہے۔ لیکن وہ ایسا کچھ بھی نہیں کہہ رہے۔
صادق خان نے کہا کہ 2016 کی طرح پھر میرے خلاف نسل پرستانہ مہم شروع کردی گئی ہے۔ مجھے مسلمان اور پاکستانی کہہ کر لوگوں کو ووٹ دینےسے ڈرایا جائےگا۔ وہ لوگ کہتے ہیں کہ چونکہ لیبر پارٹی مسلمانوں کے لیے لڑتی ہے، آواز اٹھاتی ہے۔ اس لیے لوگوں کو ڈرا رہے ہیں کیونکہ آئندہ جنرل الیکشن میں کوئی لیبر پارٹی کو ووٹ نہ دے۔ یہ بدترین قسم کی سیاست ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ زیک گولڈ سمتھ نے میرے خلاف پاکستانی اور مسلمان ہونے پرنسل پرستانہ مہم چلائی۔ جیو نیوز نے میرے خلاف چلنے والی اسلاموفو بک مہم کا بھانڈا پھوڑا تھا۔
صادق خان کا کہنا تھا کہ میرے خلاف مہم چلانے والوں میں مرکزی دھارے کے سیاستدان شامل ہیں۔ مرکزی دھارے کی کنزرویٹو پارٹی میں نسل پرستی، مسلمانوں کے خلاف نفرت ہے۔
لس ٹرسٹ امریکہ میں تھیں اور ڈونلڈ ٹرمپ کے رائٹ ہینڈ مین سٹیو بینن کے سامنے انہوں نے یہ بولا تھا کہ ٹومی روبنسن ایک ہیرو ہے۔ ٹومی روبنسن حقیقت میں ایک نسل پرست ہے اور کچھ معاملات کی بنیاد پر جیل بھی کاٹ چکا ہے۔ لس ٹرسٹ نے اس بات کی تردید نہیں کہ یہ ہیرو نہیں بلکہ خطرناک انسان ہے۔ اس خاتون نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا۔
سویلا بریوربتائیں کہ مسلمان کون سے شعبوں پر قابض ہوئے ہیں۔ یہ لوگوں کو ڈرا رہے ہیں۔جو بھی یہاں پاکستانی ہیں، مسلمان ہیں سب نے پچھلے کچھ سالوں میں کنزرویٹو پارٹی کو ووٹ دیا ہے۔ میں عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ یہ بہت اہم الیکشن ہیں۔ کسی پر غصہ نہیں کریں۔ ایسا نہ سوچیں کہ سب نسل پرست ہیں تو کسی کو ووٹ ہی نہیں دیں گے۔ نسل پرستی دیکھ کر سیاست سے دور نہ ہوں بلکہ اس کا حصہ بنیں۔ ان کے ہتھکنڈے ہیں کہ یہ ہمیں ڈرائیں۔
میئر لندن نے کہا کہ مشکلات کے باوجود لندن میں جرائم کی وارداتوں کو نیچے لائے ہیں۔
سوال کیا گیا کہ کیا ان کے مقابل کنزرویٹو پارٹی کےامیدوار سے ان کے پوائنٹس کی لیڈ کو کم کرنے کے لیے یہ ذاتی حملے کیے جارہے ہیں؟ اس پر صادق خان کا کہنا تھا کہ اہم پولنگ ڈے پر ووٹ کرنا ہے ہے۔ کیونکہ مجھےعلم ہے کہ بہت سے لوگ ووٹ نہیں دیں گے اور یہ سوچیں گے کہ صادق خان تو جیت ہی جائے گا۔ یا یہ سوچیں کہ یہ تو نسل پرست ہیں اس لیے ووٹ نہیں دینا، یا ڈر کی وجہ سے ووٹ نہ دیں۔ لیکن ایسا نہیں کریں۔ ووٹ ضرور دیں۔