میرا یہ ماننا ہے "کسی کو اپنا بنانا ہے تو اسے گلے لگائیں، گلا کاٹ کر کسی کو اپنا نہیں بنایا جا سکتا"۔ عارف وزیر کے بہیمانہ قتل کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ میں عارف وزیر کے قتل کا الزام ریاست پر نہیں لگاؤں گا کیونکہ ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے اور کوئی ماں اپنے بچے کو کیسے قتل کرسکتی ہے؟ لیکن یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ عارف وزیر کے قتل پر کسی بھی حکومتی شخصیت نے مذمت کیوں نہیں کی؟
وزیراعظم عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تب کہتے تھے کہ پی ٹی ایم کے مطالبات جائز ہیں تو پھر آج ان جائز مطالبات پر عمل درآمد کیوں نہیں کر رہے؟ مطالبات تسلیم کرنا تو دور عمران خان نے پی ٹی ایم کے رہنما عارف وزیر کے قتل کی مذمت کرنا بھی گوارا نہیں کیا جو افسوسناک ہے۔ کسی بھی وفاقی وزیر کو عارف وزیر کے قتل کی مذمت کرنے کی توفیق نا ہوئی۔
سوشل میڈیا پر ایک مخصوص طبقے نے عارف وزیر کے قتل کا الزام ان کے بھائی علی وزیر پر لگایا جو کہ شرمناک ہے۔ ایک شخص جس کے بھائی کا جنازہ بھی نا اٹھا ہو اور منظم طریقے سے قتل کا الزام بھی اسی پر لگا دیا جائے تو سوچیں اس کے دل پر کیا گزری ہوگی۔ جو شخص اپنے خاندان کے اٹھارہ جنازے اٹھا چکا ہو اور پھر بھی غداری کے الزامات کا سامنا کر رہا ہو تو وہ کس کرب سے گزر رہا ہوگا؟ حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ بانٹنے والوں سے میری گزارش ہے کہ پھر وہی غلطی نا کریں جس کا خمیازہ ہم 1971 میں بھگت چکے ہیں۔ کوئی بلوچ یا پشتون اگر آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر اپنا حق مانگتا ہے تو اس پر غداری کے الزامات لگانا نفرت کو بڑھانے کا باعث بنے گا۔
ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے تو کردار بھی ماں والا اپنائے۔ جب بچے ناراض ہوجاتے ہیں تو ماں ان کو گھر سے نہیں نکالتی بلکہ پیار سے انہیں مناتی ہے۔ میرا اسلام آباد میں بیٹھے حکمرانوں سے یہی مطالبہ ہے کہ پشتونوں کے مطالبات سنیں اور جائز مطالبات تسلیم کریں اور بیٹھ کر مسائل کا حل نکالیں کیونکہ مسائل طاقت سے نہیں مذاکرات سے حل ہوتے ہیں۔