کیا پاکستان ایک بار پھر دہشتگری کی دلدل میں دھنس رہا ہے؟

12:22 PM, 5 May, 2020

عبداللہ مومند
 

پاکستان میں گزشتہ دنوں میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ ایک طرف سابقہ قبائلی علاقوں میں سکیورٹی فورسز پر حملوں میں شدت آرہی ہے تو دوسری جانب، سیاسی رہنماؤں پر فائرنگ اور انکے قتل کے واقعات روز کے حساب سے سامنے آرہے ہیں جن میں سے سب سے اہم عارف وزیر کا قتل ہے۔ ایسے میں پاکستانی عوام اور سیکیورٹی امور کے ماہرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا  شمالی وزیرستان میں دہشتگرد تنظیمیں دوبارہ سے اپنا وجود قائم کرنے کی کوشش کررہی ہیں؟ اور کیا اگر وہ اس میں کامیاب ہوجاتی ہیں تو پاکستان ایک بار پھر دہشت گردی کی دلدل میں دھنس جائے گا؟

اس حوالے سے  اسلام آباد میں سیکیورٹی صورتحال  پر تحقیق کرنے والے ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ برائے کنفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی سٹیڈیز نے ماہ اپریل کی رپورٹ جاری کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ صوبہ خیبر پختون خوا میں ضم شدہ ضلع شمالی وزیرستان میں نہ صرف امن و امان کے حالات مخدوش ہورہے ہیں بلکہ اس کے ساتھ دہشگرد تنظیمیں دوبارہ سے اپنا وجود قائم کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔
ادارے نے رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ دہشتگرد حملوں سے اموات کی تعداد میں 6 فیصد اضافہ بھی سامنے آیا۔ ادارے نے مزید کہا کہ گذشتہ ماہ ملک میں دہشتگردی کے نو واقعات سامنے آئے جن میں 10 سیکیورٹی اہلکار ہلاک  جبکہ 6 زخمی ہوئے۔ جبکہ اس کے ساتھ ساتھ دہشتگرد تنظیموں کے بھی آٹھ  دہشتگرد ہلاک ہوئے۔
تحقیقاتی ادارے نے مزید کہا کہ گذشتہ ماہ ملک میں دہشتگردی کے کُل 9 واقعات سامنے آئے جن میں 6 واقعات سابقہ فاٹا میں پیش آئے جبکہ قبائلی علاقوں میں 90 فیصد حملے شمالی وزیرستان میں پیش آئے۔ ادارے نے کہا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ دہشتگرد تنظیمیں دوبارہ سے شمالی وزیرستان کو اپنی آماجگاہ بنانا چاہ رہی ہیں اور کالعدم انتہاپسند تنظیمیں وہاں دوبارہ اپنا وجود قائم کررہے ہیں۔ کیونکہ قبائلی علاقوں کے 7 اضلاع میں شمالی وزیرستان سب سے زیادہ دہشتگردوں کے نشانے پر ہے اور وہاں سیکیورٹی فورسز کو جانی نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ دہشتگردی کے 2 واقعات صوبہ سندھ اور بلوچستان میں بھی پیش آئے مگر یہ واقعات چھوٹے پیمانے پر تھے جہاں نقصانات کم رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی فورسز نے دہشتگری کے خلاف بلوچستان، خیبر پختون خوا، سندھ اور قبائلی اضلاع میں سولہ اپریشنز کئے جن میں بارہ مشکوک آفراد ہلاک ہوئے جبکہ کئی دہشتگرد گرفتار بھی ہوئے جبکہ کراچی سے القاعدہ کے چار کارکن بھی پکڑے گئے۔

اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقے ہی پاکستان میں دہشتگردی کا ایپی سینٹر ہوتے ہیں۔  اگر اس طرف ابھی سے توجہ نہ دی گئی تو خدشہ ہے کہ یہ دہشتگرد ملک کے دیگر حصوں کو بھی اپنے مذموم منصوبوں کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔
مزیدخبریں