پاکستان کے شہریوں نے بہت سے سنسنی خیز مجرم اور ان کے خوفناک قسم کے جرائم کی داستانیں عام سن رکھی ہیں۔ لاہور کا ہتھوڑا مار گروپ ہو، 100 بچوں کا قاتل جاوید اقبال ہو یا پھر مالش کے دوران گردن کی ہڈی توڑ کر اپنے شکار کو موت کی نیند سلا دینے والا سنسنی خیز وارداتیہ گروپ ہو یہ سب داستانیں پاکستان کے باسیوں کو آج بھی تکلیف میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ ایسی ہی کہانیوں کی کتاب میں ایک اور کہانی کا اضافہ ہوا ہے اسلام آباد کے ایک سیریل ریپسٹ کا جو کہ منظم انداز میں دن دیہاڑے خواتین کا ریپ کرتا اور اپنی نفسیاتی خواہشات پوری کرنے کے لیئے ان کے نازک عضا پر دردناک زخم رسید کرتا۔
اسلام آباد کی پولیس کی گرفت میں موجود اس سیرییل ریپسٹ نے اب تک 20 سے زائد خواتین کو ریپ کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ ان کے نازک اعضا پر تیز دھار آلے سے ضربیں بھی لگائی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اسلام آباد پولیس کی ایک لیڈی کانسٹیبل آف پولیس بھی ان خواتین میں شامل ہیں جن کو ملزم نے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔
یہ وارداتیں کس علاقے میں ہوتیں؟
بی بی سی نے لکھا کہ ملزم ان خواتین کو اسلام آباد ہائی وے پر اس جگہ پر نشانہ بناتا رہا ہے جہاں ہر روز وی وی آئی پی موومنٹ کے لیے سکیورٹی کے روٹ لگائے جاتے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی ایک قابل ذکر تعداد وہاں پر تعینات ہوتی ہے۔ جنگ کے مطابق یہ وارداتیں ان جگہوں پر ہوتیں جہاں ان کی طرف دھیان بھی نہ جائے۔
یہ ملزم ہے کون؟
مقدمے کی تفتیشی افسر رخسار مہدی کی جانب سے میڈیا کو دی گئی اطلاعات کے مطابق ملزم کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے ہے اور وہ گذشتہ چھ ماہ سے ایسے سنگین جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ وہ باورچی کا کام کرتا ہے۔ راولپنڈی، اسلام آباد اور لاہور میں کام کرتا رہا ہے۔
ملزم کا طریقہ واردات کیا ہے
منظم جرم کرنے والے مجرم کی طرح مذکورہ مجرم بھی مکمل تیاری کے ساتھ یہ جرم کرتا رہا ہے۔ ملزم جس خاتون کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانا چاہتا، واردات کرنے سے قبل اس کی ریکی کرتا اور یہ کام دو سے تین دن پر محیط ہوتا تھا۔اس عرصے کے دوران وہ خاتون کے دفتر جانے اور گھر واپس آنے کی معلومات حاصل کرنے کے بعد موقع پا کر اس کو جنسی تشدد کا نشانہ بناتا تھا۔انھوں نے بتایا کہ ملزم اپنے پاس بےہوش کرنے والی دوائی کے علاوہ تیز دھار آلہ بھی رکھتا تھا تاکہ اگر کوئی مزاحمت کرے تو اس پر تیز دھار آلے سے حملہ کیا جاسکے۔ تفتیشی ٹیم کے اہلکار کے مطابق ان خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے سے پہلے ملزم ان کے ہینڈ بیگ میں موجود رقم اور موبائل سب کچھ اپنے قبضے میں لے لیتا تھا۔ تاکہ یہ واردات ایک ڈاکے یا چوری کی واردات لگے۔ کئی شکاروں کو اسنے بے ہوش کرکے ریپ کیا۔
پولیس کے علم میں یہ واردات کیسے آئی ؟
پولیس کے علم میں یہ بات اس وقت آئی جب ایک خاتون نے تھانہ کرال میں رپورٹ درج کروائی کہ ایک نامعلوم شخص نے اس پر حملہ کیا ہے اور اسے جنگل میں لے جا کر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔۔تفتیشی ٹیم کے اہلکار کے مطابق متاثرہ لڑکی کے بیان کی روشنی میں ملزم کا سکیچ بنوایا گیا اور اس سکیچ کو قریبی افراد کو دکھایا گیا۔ سکیچ دیکھنے کے بعد ایک شخص نے فوری طور پر ملزم کو شناخت کرکے بتایا۔
موٹروے ریپ واقعہ: سڑک کنارے بچوں کے سامنے ماں کے ریپ کا ایک اندوہناک واقعہ جس نے ملک کو ہلا دیا
9 ستمبر 2020 کو گجر پورہ ، لاہور کے قریب گاڑی کا ایندھن ختم ہونے کے بعد ایک عورت کو اپنے بچوں کے سامنے بندوق کی نوک پر دو افراد نے مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا۔ پولیس نے بتایا کہ گوجرانوالہ کی رہائشی خاتون ، منگل کی رات لاہور سے شہر واپس آرہی تھی جب اس کی کار کا پیٹرول ختم ہو گیا۔ ملزمان نے موٹر وے پر کھڑی گاڑی کا شیشہ توڑ کر خاتون اور اس کے بچوں کو نکالا، موٹر وے کے گرد لگی جالی کاٹ کر سب کو قریبی جھاڑیوں میں لے گئے اور پھر خاتون کو بچوں کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ اطلاعات کے مطابق اس خاتون نے اپنے شوہر کو فون کیا ، جس نے اسے وہاں آنے تک موٹر وے پولیس کو مدد کے لئے فون کرنے کا مشورہ دیا۔ تاہم ، موٹر وے پولیس آپریٹر نے خاتون کی مدد کرنے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ایمرجنسی بیٹ کسی کو تفویض نہیں کی گئی تھی۔ خاتون کی حالت خراب ہونے پر اسے اسپتال میں داخل کرایا گیا اور خاتون کے رشتے دار کی مدعیت میں پولیس نےمقدمہ درج کیا۔ پولیس کے مطابق زیادتی کا شکار خاتون کے میڈیکل ٹیسٹ میں خاتون سے زیادتی ثابت ہوئی۔
اد رہے کہ اس وقت کے سی سی پی او عمر شیخ نے اس خوفناک واقعے کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس خاتون پر ، جنہیں موٹر وے پر دو ڈاکوؤں نے زیادتی کا نشانہ بنایا تھا ، ان کے راستے کا انتخاب اور سفر کے لئے روانہ ہونے سے پہلے پیٹرول چیک نہ کرنے کا الزام لگایا تھا۔ سی سی پی او نے کہا تھا کہ تین بچوں کی والدہ کو موٹر وے کی بجائے جی ٹی روڈ روٹ پر سفر کرنا چاہیے تھا، جونسبتاً گنجان آباد علاقہ ہے. اس پر ملک کے ہر طبقہ ہائے زندگی سے عمر شیخ کی برطرفی کا مطالبہ کیا گی اتھا جسے رد کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے انہیں ایک قابل افسر قرار دیا تھا۔
انسداددہشتگردی عدالت کےجج ارشدحسین بھٹہ نےکیمپ جیل لاہور میں تقریباً 6 ماہ کی عدالتی کارروائی کے بعد فیصلہ سنایا۔ اس کیس کے چالان میں کُل 37 گواہوں کے بیانات شامل کیےگئے تھے ، 200 صفحات پر مشتمل چالان چند روز قبل پیش کیا گیا تھا۔ عدالت نے دونوں ملزمان عابد ملہی اور شفقت کو سزائے موت سنادی ہے، دونوں ملزمان کو عمر قید کی سزا کے ساتھ 50،50 ہزار روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی گئی ہے۔