پختون قوم کے پیشوا کے مسائل و نظریات: باچا خان کے پاکستان میں اعتراض اور پاکستان کا ردعمل

07:59 PM, 5 May, 2021

عظیم بٹ
آج سے دو سال قبل 2019 میں مجھ پر سائبر کرائم کا مقدمہ مئی کے ہی مہینے میں پانچویں روزے بنایا گیا اور بعدازاں 16 روزہ جسمانی ریمانڈ کے بعد مجھے جوڈیشل کر دیا گیا اور لاہور کی جیل میں میری زندگی کے اہم ترین 6 ماہ ضائع کئے گئے آج بھی مقدمہ برقرار ہے اور پیشیاں بھگتائی جا رہی ہیں کیس چونکہ زیر سماعت ہے تو اس کی تفصیل میں جائے بنا بس یہ عرض کئے دیتا ہوں کہ بطور انسان میرے لئے اپنے خیر خواہ تلاش کرنے اور سمجھنے کا یہ چھے ماہ کا دور میری اگلی زندگی میں ہمیشہ کے لئے تابوت میں کیل کی حیثیت رکھتا ہے. بطور ایک ادنٰی سے صحافی ہی صحیح مگر صحافتی اداروں یا اشخاص کا میرے لئے آواز اٹھانا مجھے زندگی بھر ان کا قرض دار کر سکتا تھا بہت سے افراد نے ا ٓواز اٹھائی بھی اور میں ان زندگی بھر احسان مند بھی رہوں گا جن میں ریحام خان، ندا کریمانی، محمد سعد سمیت دیگر ایکٹویسٹ شامل ہیں۔
اس سب تمہید کا مقصد آپ کو اس بات کی نشاندہی کروانا تھا کہ تاریخ میں بھی جنہوں نے اختلافات کئے ہیں ضروری نہیں کہ وہ بے بنیاد ہوں اور ضمیر فروشی کے زمرے میں آتے ہوں۔ پختون قوم کو ملک بھر میں ایک خاص ذہنیت کے پروان چڑھانے کے بعد الگ حیثیت اور سوچ سے دیکھا جاتا ہے پختون قوم کے مسیحا عبدالغفار خان عرف باچا خان کو غدار تک قرار دیا گیا مگر یہاں بیٹھے ہم نے کبھی ان حقائق پر نظر ڈالنے کی کوشش نہیں کی جس کی بنیاد پر انہون نے قائد اعظم اور مسلم لیگ سے راہ فرار یا یوں کہہ لیجئے اختلاف کیا تھا۔حالانکہ ضروری نہیں کہ آپ ان کی بات سے اتفاق کریں یقینا ان کا مدعا انتہائی سخت اور بطور پاکستانی قابل برداشت نہ تھا مگر ان کی زبانی یہ مدعا ان سے کی گئی زیادتیوں کا رد عمل تھا۔ بطور پاکستانی کوئی بھی شخص باچا خان کی چند تلخ باتوں جو انہوں نے پاکستان سے متعلق کیں  ان سے اتفاق نہیں کرے گا یہاں تک کہ پختون بھی ان باتوں سے اختلاف رکھیں گے اور چند جملے جو میں آپ کے سامنے رکھوں گا ان کو باچا خان کا ذاتی موقف قرار دیں گے۔
باچا خان کہتے ہیں کہ میرے نزدیک پاکستان سے دوستی ممکن ہی نہیں کیونکہ پاکستان کی بنیاد نفرت پر رکھی گئی ہے پاکستان کی گھٹی میں نفرت، بغض و حسد کینہ و دشمنی اور حقارت کے جذبات بھرے پڑے ہیں پاکستان کی تشکیل انگریز کی مرہون منت ہے پاکستان انگریزوں نے اس لئے بنایا کہ زندگی بھر کہ لئے ہندو اور مسلمانوں میں فسادات ہوتے رہیں۔(کتاب؛  آپ بیتی، خان عبدالغفار خان) صفحہ نمبر ۲۰۵
باچا خان نے اپنی پیدائش سے آخری لمحے تک کا سفر بیاں کر کے ان الفاظ پر اپنی آپ بیتی کا اختتام کیا ہے۔ اب ان الفاظ سے آپ ان کی تلخ سوچ کا اندازہ لگا سکتے ہیں مگر اس سے ساتھ ساتھ کچھ حقائق وہ بھی ہین جو انہوں نے مسلم لیگ سے متعلق اپنی کتاب کا حصہ بنائیں ہیں۔ صحیح یا غلط کا فیصلہ تو ہر شخص نے اپنی سوچ اور عقل سے کرنا ہے مگر کتاب آج بھی مارکیٹ  میں عام دستیاب ہے جس میں یہ حقائق ملک بھر کی ہر کتاب مارکیٹ سے مل سکتے ہیں۔
ایک محاورہ ہے کہ جس تن لاگے وہ من جانے۔۔۔بہر کیف قطعا نظر کے باچا خان سمیت پختونوں کے ساتھ زیادتیاں ہوئی یا نہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری جانب سے ان پر مرہم کب رکھا گیاَ؟ پختونوں کو قومی ڈھارے میں لانے کے اقدامات تقسیم سے قبل یا بعدازتقسیم کئے گئے کے نہیں؟اس کا جواب بھی باچا خان اپنی کتاب میں کچھ یوں دیتے ہیں کہ جب ہندوستان سے انگریز کے انخلاء کا وقت ٓیا تو ایک چار رکنی کمیٹی مسلم لیگ اور ایک کانگریس نے تشکیل دی کانگریسی کمیٹی میں ابولکلام ٓزاد، جواہر لال، سردار پٹیل اور باچا خان جبکہ مسلم لیگ کی کمیٹی میں جناح، لیاقت علی خان، نواب اسمعیل اور عبدالرب نشتر شامل تھے جنہوں نے آپسی گفتگو میں یہ فیصلہ کیا کہ کے انگریز کی چال میں آٓنے کی بجائے پہلے اس سے دریافت کیا جائے کہ کہیں تو کانگریس اور مسلم لیگ کے چکر میں ہندوستان سے اپنی فوجیں نکالنا بھی چاہتے ہو یا نہیں اس بابت جب دوسرے روز جواہر لال نے یہ باتیں پیش کیں تو وائسرائے لارڈ ڈویول کا کہنا تھا ہم تو ہندوستان چھوڑتے ہیں لیکن یہ بتائیے کہ کس کے حوالے کریں؟ اب یہ فیصلہ آپ آپس میں کر لیں۔
اس بات کا اثر جناح پر بھی ہوا اور انہوں نے کہہ دیا کہ اچھی بات ہے ہم گھر میں فیصلہ کر لیں۔ جناح صاحب اور نہرو نے یہ فیصلہ کیا کہ تین رکنی کمیٹی بنائی جائے جس میں سے ایک ممبر کانگریس ایک مسلم لیگ اور ایک مشترکہ چنا جائے جو فیصلے ہم مشترکہ کر لیں وہ ٹھیک جو اختلاف رائے والے ہوں وہ تین رکنی کمیٹی طے کرے گی۔کمیٹی کے ممبران چننے کے لئے دو دن لئے گئے اور تیسرے روز لارڈ پیتھک لارنس جب جناح صاحب سے پوچھا تو جناح صاحب اس سارے فیصلے سے ہی منکر ہو گئے۔ اس وقت میں نے نشتر صاحب کو اشارہ کیا وہ میرے پاس ٓگئے میں نے ان سے کہا کہ جناح صاحب سے کہیں کہ وہ کھیل نا بگاڑیں کیونکہ گاندھی جی نے میرے سامنے میرے ساتھیوں سے کہا ہے کہ مسلمان جو کچھ بھی مانگیں وہ انہیں دے دو۔ لیکن فیصلہ اتفاق رائے سے کر لو۔ نشتر صاحب چلے گئے اور جناح صاحب کے پیچھے کھڑے ہو گئے لیکن جناح صاحب نے ان کی جانب کوئی دھیان نہ دیا۔ نشتر صاحب واپس اپنی سیٹ پرآکر کر بیٹھ گئے اور معاملہ ختم ہو گیا۔(کتاب؛  آپ بیتی، خان عبدالغفار خان)سفحہ نمر ۱۷۹، ۱۸۰
ان تمام معاملات کے بعد جب بلاآخر انگریز ہندوستان سے تقسیم کر کے چلا گیا اور سرحد کا صوبہ پاکستان کے حق میں آیا اور گاندھی اور کانگریس کی جانب سے بھی باچا خان کو لفٹ کروانا بند کر دیا گیا جس کا تذکرہ بھی اسی کتاب مین باچا خان کرتے ہیں کہ کہ کانگریس نے بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور یہ بے یارو مدد گار ہو گئے تو باچا خان نے پاکستان کی شہریت اور یہاں رہنے کا فیصلہ کیامگر ان کی احساس محرومی اور مظالم والا معاملہ بند نہ ہوا۔
باچا خان لکھتے ہیں کہ بٹوارا ہو چکا تھا میں نے کہا اب جب پاکستان بن چکا ہے اور کانگریس اور مسلم لیگ نے تقسیم مان لی ہے تو میں اور میری پارٹی بغیر کسی قسم کا حصہ مانگے ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں میری قوم پاکستان کی شہری اور وفادار رہے ہم اس ملک کی تعمیر و ترقی میں مکمل حصہ لیں گے لیکن پاکستانی حکومت پر اس کا کوئی اثر نا ہوا الٹا مجھ پر یہ الزام لگایا گیا کہ میں تعمیر کی آڑ میں تخریب چاہتا ہوں اور مجھے گرفتار کر لیا گیا اور مجھے تین برس کی سزا سنا دی گئی۔نیک چلنی کے باعث جب ضمانت مانگ کر مجھے رہا کرنے کی بات ٓئی تو میں نے ضمانت دینے کی وجہ پوچھی تو کہا گیا کہ میں پاکستان کے خلاف ہوں اس بات پر میں نے ضمانت دینے سے انکار کر دیا تو مجھے بامشقت تین برس کی مزید سزا سنا دی گئی۔اور جب میں پوری سا کاٹ چکا تو مجھے ۱۸۱۸ ریگولیشن کے تحت نظر بند کر دیا گیا۔ مجھے تقریبا پندرہ برس پاکستان کی جیلوں میں رہنا پڑا جونہی پاکستان کی حکومت وجود میں آئی تو بغیر کسی قسم کی وجہ کہ ہم پر ایسے ایسے مظالم توڑنے شروع کر دئیے جو کافر فرنگیوں کے عہد حکومت میں بھی ہم پر نہ رکھے گئے تھے فرنگیوں نے ہمارے گھروں کو نہیں لوٹا مگر پاکستانی اسلامی حکومت نے لوٹ لیا فرنگیوں نے جلسے اور اخبار بند نا کئے مگر پاکستانیوں نے کئے فرنگی پختونوں کی عورتوں کی بے عزتی نہیں کرتے تھے پاکستانیوں نے کی۔ان سب باتوں کا تذکرہ چھوڑئیے چارسدہ میں پٹھان مرد وزن جمعہ کی نماز ادا کرنے اور اپنے گرفتار شدہ بھائیوں کے لئے دعائیں مانگنے جا رہے تھے اور اپنے سروں  پر قرآن شریف رکھ کر مسجد میں داخل ہو رہے تھے تو اس وقت پاکستان کی اسلامی حکومت کے مشین گن چلانے والے سپاہی پٹھان مرد و عورت کے سینے اور خدا کے قرآن پر گولیاں چلا کر انہیں چھلنی کر رہے تھے۔(کتاب؛  آپ بیتی، خان عبدالغفار خان)آخری باب
شخصیت پرستی کی آڑ سے نکل کر ان کا فیصلہ اب آپ کو کرنا ہے کہ آیا یہ باتیں جو باچا خان لکھ گئے اس کے بعد ان کی حب الوطنی یا ان کے مظالم کی داستان کو کس درجہ پر رکھنا ہے۔
مزیدخبریں