نوابوں، جاگیرداروں کا اثر و رسوخ اتنا بڑھ گیا کہ غلاموں کو کھیتی باڑی چھوڑ کر کوئی دوسرا پیشہ اختیار کرنے یا کسی اور جگہ آباد ہونے کا کوئی حق نہیں تھا۔ انہیں اپنے آبائی پیشے سے ہی باندھ دیا گیا۔ زمینداروں کو نصف تا تین چوتھائی حصہ نوابوں کے حوالے کرنا پڑتا تھا۔ مفت بیگار اور جبری محصولات ان پر لاگو تھے۔ آلاتِ پیداوار ہل، بیل، بیج وغیرہ کاشت کاروں کے اپنے ہوتے تھے مگر وہ بمشکل اتنا اناج پیدا کر پاتے کہ جو واجبات ادا کرنے کے بعد اپنے بچوں کا پیٹ بھر سکتے۔
اُس وقت گاؤں میں اِکّا دُکّا دستکار بھی ہوتے تھے مثلاً لوہار، موچی، کمہار وغیرہ جن سے گاؤں والے اناج کے بدلے کام لیتے تھے۔
یورپ میں فیوڈل ازم کا دوسرا ستون رومن کلیسا تھا جو عیسائی مذہب کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتے رہے۔ انہوں نے دینِ مسیحی کو سلطنت کا مذہب قرار دیا۔ اس کی وجہ سے رومن کلیسا یورپ میں اثر و اقتدار اور دولت سمیٹ کر سیاسی طاقت بن گیا۔ اس کے پاس اٹلی کے علاوہ دوسرے ملکوں میں بھی لاکھوں ایکڑ زمین تھی اور یورپ کا سب سے بڑا زمیندار تھا۔ ان زمینوں پر اس کو کوئی لگان یا محصول ادا نہیں کرنا پڑتا تھا اور کلیسا کے کاشت کار، پادریوں کے بے ضرر غلام تصور کیے جاتے تھے اور نوابوں کو بھی اپنی آمدنی کا دسواں حصہ کلیسا کو ادا کرنا پڑتا تھا۔
یوں سمجھ لیجئے کہ یہیں سے انسانوں کے استحصال، طبقاتی نظام اور مذہبی اثر و رسوخ کی ابتدا ہوتی ہے۔
کارل مارکس کا خیال ہے کہ 'کسی سرمایہ دار کے تابع بڑی تعداد میں مزدوروں کو ایک جگہ پر، اپنی قوت میں ایک ہی قسم کی اشیائے بازاری کا پیدا کرنا تاریخی اور منطقی اعتبار سے سرمایہ دارانہ پیداوار کا مقامِ سفر ہے'۔ آسان الفاظ میں یہ کہ سرمایہ داری وہ سماجی نظام ہے جس میں مزدور طبقہ ذرائع پیداوار یعنی خام مال اور مشینی آلات و اوزار کسی کارخانے میں یکجا ہو کر بازار میں فروخت ہونے والی چیزیں پیدا کرتا ہے۔
اس پیداواری طرز کی بڑے پیمانے پر ابتدا چودھویں اور پندرھویں صدی میں اٹلی سے ہوئی۔
اٹلی کی ریاستوں نے صلیبی جنگوں کے دوران خوب ترقی کی تھی۔ جنگ صلیبیہ کا ظاہری مقصد بیت المقدس کو مسلمانوں سے آزاد کروانا تھا لیکن حقیقی مقصد اقتصادی تھا۔ یعنی شام، لبنان اور فلسطین پر قبضہ کرنا اور بحری تجارت کی اجارہ داری حاصل کرنا۔ اطالوی (اٹلی کے) تاجروں نے اس جنگ سے خوف فائدہ اٹھایا۔ مسیحی اور مسلمان فوجیں لڑتی رہیں اور اطالوی موقع پرستوں نے قصریہ، عقرا، سدون اور طائر کی تجارت پر قبضہ کر لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ طرابلس، طائر کی ریشمی کپڑوں کی صنعت، شام کی شیشہ سازی اور اسلحہ سازی کی صنعتیں اطالوی تاجروں کے تصرف میں آ گئیں۔
جب یورپ کے جاگیرداروں نے اٹلی کے سرمایہ داروں کی قسمتوں کو راتوں رات بدلتے دیکھا تو وہ بھی سرمایہ داری کی جانب اُمڈتے چلے آئے۔
ہالینڈ میں اون کی فیکٹریاں کھلیں اور برطانیہ کے نواب اپنے کاشت کاروں کو زمین سے بے دخل کر کے بڑی تعداد میں بھیڑیں پالنے اور ان کی اون ہالینڈ کی فیکٹریوں کو فراہم کرنے لگے۔ ہزاروں بلکہ لاکھوں کسانوں کو بے دخل ہو کر روزی روزگار کی تلاش میں شہروں کا رخ کرنا پڑا۔ کسانوں کے پاس اپنی قوتِ محنت کے سوا نہ تو کوئی اوزار تھا اور نہ ہی کوئی اثاثہ۔ سرمایہ داروں نے اپنی فیکٹریوں کے لیے انہیں اجرتی مزدور بھرتی کرنا شروع کر دیا۔
سرمایہ داری نظام سے کسانوں کو یہ فائدہ ضرور پہنچا کہ وہ مزدور سے آزاد مزدور بن گئے۔ یعنی وہ اپنے کام اور بیگار سے آزاد ہوئے لیکن ان سے کم اجرت میں زیادہ کام کروانے کا رواج پھر ابھرتا گیا۔
سولہویں اور سترہویں صدی میں برطانیہ کان کنی، شیشہ سازی اور اسلحہ سازی کی صنعتوں کا مرکز رہا۔ سرمایہ داری کے نفع کو دیکھ کر بین الاقوامی تجارت کے لیے بڑی کمپنیاں کھولی گئیں جن میں سے ایسٹ انڈیا کمپنی 1600 عیسوی میں کھولی گئی۔ اس کے سوا کسی برطانوی کمپنی کو ہندوستان اور چین سے تجارت کا اختیار نہیں تھا۔ اسی طرح ایسٹ انڈیا کمپنی برصغیر کے علاوہ لنکا اور جاوا کی تجارت کی بھی اجارہ دار تھی۔
برطانیہ کا پیداواری نظام ہنوذ مینوفیکچرنگ ہی تھا جس سے سرمایہ داری طبقے کی ضرورتوں کو پورا نہیں کیا جا سکتا تھا۔ برطانیہ میں کپاس نہیں ہوتی تھی اور اس سے سوتی پارچہ بافی کی صنعت ناپید تھی۔ یہ کمی بنگال، بہار اور اڑیسہ پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضے (1787) اور شمالی امریکہ کی برطانوی نوآبادیات اور نیگرو غلاموں کے ذریعے بڑے پیمانے پر کپاس کی کاشت نے پوری کر دی۔
سرمایہ دار کا سکّہ خوب چلتا رہا لیکن مسئلہ صرف یہ تھا کہ سیاسی طاقت ہنوز جاگیرداروں اور نوابواں کے ہاتھوں میں مرتکز تھی۔ لہٰذا سترھویں صدی کی ابتدا میں لندن کے سرمایہ داروں اور جاگیردار بادشاہ جمیز اوّل کے درمیان اقتدار کی کشمکش شروع ہوئی اور خانہ جنگی کی صورت اختیار کر گئی۔ 1649 میں بادشاہ جیمز اوّل کا سر قلم ہوا اور یوں سیاسی اقتدار فیوڈل طبقے سے نکل کر سرمایہ دار طبقے کے سپرد ہوا۔ انگریز نواب ہمیشہ کے لیے برطانیہ کے صنعتکاروں کے تابع ہو گئے۔
اس خانہ جنگی میں مزدور اور غلاموں نے خوب شرکت کی حالانکہ اس جنگ میں انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوا سوائے اس کے کہ انہیں مزاحمت اور جنگ کرنے اور مستقبل میں اپنے لیے لڑنے کا گُر آ گیا اور اس کا نتیجہ سترھویں صدی میں پیرس کمیون کی شکل میں سامنے آیا جہاں مزدوروں نے سرمایہ دار شہنشاہ نپولین سے اقتدار چھین کر دو مہینوں تک پیرس میں اپنے اقتدار کا لوہا منوایا۔
تجارتی اجارہ داری سے ایسٹ انڈیا کمپنی ملک گیر طاقت بن گئی تھی۔ 1833 میں قانونِ ہند کے مطابق ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ معاہدے کی معیاد 1853 میں ختم ہونے والی تھی۔ ان 20 برسوں میں کمپنی نے سندھ، پنجاب اور سرحد پر ناجائز قبضہ کیا تھا۔ تب ایک برطانوی حلقے کا خیال تھا کہ ہندوستان کو سلطنتِ برطانیہ میں براہِ راست شامل کیا جائے۔ البتہ حکومت یہ نہیں مانی لیکن نئے قانون میں ایسی دفعات شامل کر دی گئیں جن کی رو سے ہندوستان کا نظم و نسق بالواسطہ طور پر برطانوی سلطنت کی نگرانی میں آ گیا۔
مثلاً کمپنی کے نئے معاہدے میں معیاد متعین نہیں کی گئی تا کہ حکومت جب چاہے چارٹر منسوخ کر دے۔ دوئم ڈائریکٹروں کی تعداد جو 24 تھی 18 کی گئی اور طے پایا کہ 6 ڈائریکٹروں کو تاجِ برطانیہ نامزد کرے گا۔ سوئم یہ کہ سول سروس کی تمام آسامیاں آئندہ کھلے مقابلے کے امتحان سے پُر کی جائیں گی نا کہ ڈائریکٹروں کی مرضی سے۔ چہارم بورڈ آف ڈائریکٹرز کے صدر کو کابینہ کا رکن بنا دیا گیا تا کہ کمپنی کے تمام بڑے فیصلے حکومت کی مرضی سے ہوں اور حکومت کمپنی کی سرگرمیوں سے باخبر رہے۔
مغل شہنشاہ اورنگزیب کی وفات کے بعد جب ہندوستان میں طوائف الملوکی پھیلی تو دکن، کرناٹک، میسور اور بنگال خودمختار ہو گئے۔ انگریزوں نے ان علاقوں کی خودمختاری سے فائدہ اٹھا کر تجارتی مفادات کے تحفظ کے بہانے ساحلی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اسی اثنا میں برطانیہ میں مشینی صنعتوں نے خوب ترقی کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی اب فقط ہندوستانی چیزوں کی خرید و فروخت کا کام نہیں کرتی تھی بلکہ برطانوی مصنوعات کو ہندوستان میں فروخت کرنے لگی۔ اسی لیے ایسٹ انڈیا کمپنی کا کردار ہی بدل گیا۔
اب ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان سے مصنوعات کے بجائے خام مال بالخصوص کپاس وغیرہ برآمد کرنے لگی اور برطانوی مصنوعات درآمد ہونے لگیں۔ 1850 میں برطانیہ سے 80 لاکھ پاؤنڈ کا مال ہندوستان آیا۔ اس سے پہلے 4 لاکھ پاؤنڈ کا مال ہندوستان آتا تھا۔
سرزمینِ ہند میں انگریزوں کی سیاسی رسہ کشی اٹھارویں صدی کے وسط میں شروع ہوئی تھی لیکن 100 سال بھی نہ گزرے تھے کہ پشاور سے رنگون تک اور سری نگر سے راس کماری تک پورے برصغیر پر انگریز قابض ہو گئے۔
معروف دانشور، سیاسی کارکن و انقلابی کارل مارکس ہندوستان کے ان حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ '7 سالہ جنگ (1756-1763) کے واقعات نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو تجارتی ادارے کی جگہ فوجی اور علاقائی قوت بنا دیا تھا۔ چنانچہ اٹھارویں صدی میں ہندوستان سے جو دولت برطانیہ منتقل ہوئی اس میں تجارت کا حصہ برائے نام تھا۔ یہ دولت ملک کی بے تحاشہ اور براہ راست لوٹ سے سمیٹی گئی تھی۔ اس کے ساتھ تجارتی کمپنی کی تجارت کا کردار بھی بدل گیا تھا'۔
البتہ انگریز سلطنت نے کئی خودمختار ریاستوں کی نام نہاد خودمختاری برقرار رکھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ان دیسی ریاستوں کے والی تاجِ برطانیہ کے وفادار حلیف ثابت ہوئے اور انہوں نے وطن کی تحریکِ آزادی کو کچلنے کے لیے انگریزوں کا پورا پورا ساتھ دیا۔
مارکس ان کے بارے لکھتا ہے کہ 'یہ والیانِ ریاست انگریزوں کے سب سے زیادہ وفادار غلام ہیں۔ وہ برطانوی نظام کا سب سے مضبوط قلعہ ہیں اور ہندوستان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں'۔
انگریزوں نے ہندوستان کے ساتھ ایسا سلوک کیا جو نادر شاہ درانی اور احمد شاہ ابدالی جیسے لٹیرے بھی نہیں کر پائے تھے۔ انہوں نے اس لوٹ کھسوٹ کو ایک فن بنا دیا۔ مارکس اس بارے لکھتے ہیں کہ ہندوستانی مالیت میں سے 17 فیصد انگریزی فوج پر خرچ ہوتی ہے اور تعمیرات پہ فقط 4 فیصد۔
مارکس اس تاریک پہلو سے متعلق فرماتے ہیں؛ 'لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریز ہندوستان میں جو تبائیاں لائے ہیں وہ مختلف نوعیت کی ہیں اور بے انتہا شدید ہیں۔ انگلستان نے ہندوستانی معاشرے کا سارا ڈھانچہ ہی توڑ پھوڑ دیا ہے اور کسی تعمیرِ نو کے آثار اب تک نظر نہیں آتے۔ برطانیہ کے زیرِ حکومت آنے کے بعد ہندوستان اپنی قدیم روایتوں اور سابقہ تاریخ سے کٹ گیا ہے'۔ آگے لکھتے ہیں؛ 'انگریزوں کو انگلستان میں دو فریضے ادا کرنے ہیں؛ ایک تخریبی اور دوسرا احیائی، یعنی قدیم ایشیائی معاشرے کو نیست و نابود کرنا اور ایشیا میں مغربی معاشرے کی مادی بنیاد رکھنا'۔
مارکس کا کہنا تھا کہ انگریزوں کی آمد سے پہلے ترکوں، تاتاریوں اور مغلوں سمیت جو فاتح بھی ہندوستان آئے انہوں نے مقامی تہذیب و تمدن کا اثر قبول نہیں کیا البتہ انگریزوں کا تمدن ہندوستانی تمدن سے بالاتر تھا۔ انگریزوں نے دیہی جمیعتوں اور مقامی صنعتوں کو نیست و نابود کر کے معاشرے کی عمدگیوں اور نفاستوں کو ملیامیٹ کر کے یہاں کے تمدن کی اینٹ سے اینٹ بجا ڈالی۔ ہندوستان میں انگریزوں کی تاریخ اسی تباہی و بربادی کی تاریخ ہے۔
انگریز سرکار کی اپنے ہاتھوں خود کے لیے مشکلیں پیدا کرنے کی رواداد سناتے مارکس کہتے ہیں کہ معاشرے کے نزدیک معاشرتی احیا کی پہلی شرط ملک کی سیاسی وحدت ہے۔ مارکس دعوٰی کرتے ہیں کہ ہندوستان میں پہلی بار انگریزوں کے عہد میں سیاسی وحدت بنی۔ حتیٰ کہ مغلوں کے زمانے میں بھی ہندوستان کو یہ وحدت نصیب نہیں ہوئی تھی۔ برطانوی دور کی دوسری اہم خصوصیت تار برقی اور ریلوے کا نظام تھا جس کی وجہ سے سیاسی وحدت کو تقویت پہنچی۔ تیسرا فائدہ یہ ہوا کہ انگریزوں کو اپنے سامراجی مقاصد کے لیے دیسی سپاہیوں کو مغربی اصولوں کے مطابق تربیت دینی پڑی۔ یہ تربیت یافتہ دیسی فوج ہندوستان کی خودمختاری کی بنیادی شرط ثابت ہوئی۔ (1857 میں ایسا ہی ہوا جب دیسی سپاہیوں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کر دی)۔ چوتھا فائدہ یہ کہ انگریز کی آمد سے قبل یہاں اخبار نام کی کوئی شے نہیں تھی۔ انگریزوں نے چھاپے خانے لگا کر اخبار جاری کر کے ہندوستانیوں کو پہلی بار ذرائع ابلاغ سے روشناس کرایا۔ مارکس کے نزدیک ہندوستان میں معاشرتی جمود کا سبب یہ تھا کہ زمین کسی کی ذاتی ملکیت نہیں تھی۔ انگریز نے شمالی ہند میں زمینداری کا نظام اور جنوبی ہند میں رعیت داری کا نظام رائج کیا۔
انگریزوں کو سرکاری دفتروں، کاروباری اداروں اور عدالتوں کے لیے انگریزی داں بابوؤں کی ضرورت پڑتی تھی اس لیے انہوں نے کلکتہ، مدارس، بمبئی میں جدید طرز کے سکول و کالج قائم کیے۔ ان درس گاہوں کے بدولت ہندوستانی طالب علم مغرب کے جدید علوم و فنون اور جمہوریت، آزادی اور اصولوں سے واقف ہونے لگے۔ ان میں شہری حقوق کا شعور پیدا ہوا۔ گویا انگریزوں نے حالات سے مجبور ہو کر اپنے اقتدار کی موت کا سامان خود ہی فراہم کر دیا۔
مارکس لکھتا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی شروع ہی سے اس پالیسی پر کاربند رہی کہ اپنے مصارف کا بوجھ ہندوستانی رعایا کو منتقل کرتی رہے۔ مثلاً 1705 میں ہندوستانی قرضے کی رقم 256 لاکھ پاؤنڈ تھی۔ 1769 میں 340 لاکھ پاؤنڈ ہو گئی۔ 1850 میں 471 لاکھ پاؤنڈ اور 1858 میں 600 لاکھ پاؤنڈ۔ ہندوستانی مالیت کی زبوں حالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1859 میں ہندوستان کی کل آمدنی 2 کروڑ 40 لاکھ پاؤنڈ تھی اور اخراجات 3 کروڑ 70 لاکھ پاؤنڈ، یعنی سالانہ خسارہ ایک کروڑ 70 لاکھ کا تھا۔
مارکس کہتے ہیں کہ سامراج کی تین بنیادی خصوصیات ہیں؛ اول پسماندہ ملکوں پر قبضہ کر کے ان کی خام پیداوار کو اپنے قبضے میں لانا، دوم اپنی مشینی مصنوعات کو مقبوضات میں مہنگے داموں فروخت کرنا اور سوم اپنے فاضل سرمائے کو پسماندہ ملکوں میں لگانا تا کہ اونچی سے اونچی شرح سے نفع کمایا جا سکے۔ مارکس لکھتا ہے کہ برطانیہ ہندوستان پر قرضوں کا بوجھ لاد کر پھر ان قرضوں سے سود وصول کر کے نفع کماتا تھا۔