پنجاب پولیس کی ساکھ کا مسئلہ
'پنجاب کی سب سے بڑی بدمعاش پنجاب پولیس ہے'۔ یہ جملہ آپ نے درجنوں مرتبہ اپنی زندگی میں سن رکھا ہوگا۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ بہت سے پولیس افسران کی جانب سے ملزمان ہی نہیں۔ عام لوگوں کے ساتھ بھی عموماً ایسا سلوک کیا جاتا ہے کہ عوام میں یہ عقیدہ راسخ ہے کہ پنجاب پولیس ایک غیر تربیت یافتہ اور ظالم فورس ہے جو کہ جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی میں بھی ملوث ہے اور معاشرے کی تمام برائیاں مثلاً ملاوٹ، چوری چکاری، جسم فروشی، زمینوں اور جائیدادوں پر قبضوں سے لے کر رشوت ستانی تک سب کچھ پنجاب پولیس کے ناصرف ان جرائم پر آنکھیں بند کر لینے سے چل رہا ہے بلکہ بہت سے معاملات میں پولیس کے افسران خود ان کاموں میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ رشوت ستانی ان میں اہم ترین ہے۔ آپ کی موٹر سائیکل چوری ہو جائے، ایف آئی آر درج کروانے جائیں تو رشوت لیتے ہیں۔ موٹر سائیکل مل جائے تو واپس کرنے کے لئے رشوت لیتے ہیں۔ پھر اس کو چوری شدہ موٹر سائیکلوں کی فہرست سے خارج نہیں کرتے۔ اس بنیاد پر موٹر سائیکل کو اس کے مالک سمیت پکڑ لیتے ہیں اور پھر اسے چھوڑنے کے علیحدہ پیسے لیتے ہیں۔ یہ کوئی ایسی چیزیں نہیں جو آپ نے اپنے ارد گرد دیکھی نہ ہوں۔ سڑکوں پر چھینا جھپٹی کے معاملات میں تقریباً سو میں سے نوے کیسز میں سی سی ٹی وی کیمرا ہی خراب نکلتا ہے اور سالوں پولیس کے علم میں ہونے کے باوجود اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا جاتا کیونکہ کچھ کرنے کی صورت میں چوروں کے ساتھ ساز باز ختم کرنا ہوگی۔
غرضیکہ پولیس کے لئے عوام کے دلوں میں کبھی بھی رحم نہیں رہا اور اس کی وجہ پولیس افسران کا اپنا کردار ہے۔ اب یہ بیچارے ہیں تحریکِ لبیک پاکستان جیسی انتہا پسند تنظیم سے برسرِ پیکار۔ لہٰذا پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ پولیس کے پاس اس قسم کے متشدد جتھوں کو قابو کرنے کی کوئی تربیت ہی موجود نہیں ہوتی۔ دوسرا مسئلہ ہے legitimacy یا ساکھ کا۔ پنجاب پولیس کی اوپر بیان کی گئی خصلتوں کی وجہ سے یہ عوام میں اس حد تک غیر مقبول ہے کہ جب پولیس والوں کو تحریکِ لبیک والے مارتے ہیں تو ان کے لئے لوگوں کی دلوں میں ہمدردی کے جذبات پیدا نہیں ہو پاتے۔
متشدد جتھوں کے سامنے نہتے پولیس افسران کو بھیجنے کی روش
نفری کے مسائل اپنی جگہ لیکن یہ ساکھ کی عدم موجودگی ہی ہے کہ حکومتیں جب اس قسم کے جتھوں کو قابو کرنے یا انہیں کسی حساس مقام پر پہنچنے سے روکنے کے لئے پولیس کو بھیجتی ہیں تو ان سے اسلحہ لے لیا جاتا ہے۔ اس کی دو مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ ایک تو حالیہ دنوں میں ہی تحریکِ لبیک پاکستان کے کارکنان کے سامنے پولیس کو بغیر اسلحے کے بھیجا گیا جس سے ان کے جانی نقصان اور زخمیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ دوسرا واقعہ 2014 کے دھرنے کا ہے کہ جب اس وقت کے وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان کے حکم پر تحریکِ انصاف اور طاہرالقادری کے جتھوں کے سامنے نہتے پولیس افسران کو بھیجا گیا تھا اور ان ڈنڈا برداروں نے پولیس کے ساتھ وہ کچھ کیا جسے دیکھنے اور سننے کی ہمیں عادت کم از کم اس وقت تک نہیں تھی۔ ایس پی عصمت اللہ جونیجو کا کیس اس کی بدترین مثال تھا کہ جنہیں انہی جتھوں کے تشدد کے بعد کئی ہفتوں تک اسپتال داخل رہنا پڑا تھا۔
اس کی ایک وجہ جون 2014 میں ماڈل ٹاؤن واقعے سے پیدا ہونے والی صورتحال بھی تھی کہ جب طاہرالقادری کے مدرسے کے باہر پولیس آپریشن کے دوران تصادم سے 14 کارکنان ہلاک اور 100 کے قریب زخمی ہو گئے تھے اور اس سے کھڑے ہونے والے سیاسی طوفان نے پاکستان میں حکومتوں کو ایک بہت بڑا سبق سکھایا کہ پولیس کو اسلحہ دے کر مجمعے کو قابو کرنے بھیجنا خطرے سے خالی نہیں۔ ان کی حفاظت کے لئے سامان اول تو موجود نہیں اور جو موجود ہے وہ ان درندوں کی وحشت کے آگے ناکارہ ہے۔
پولیس کی تحریکِ لبیک کے ساتھ نظریاتی کشمکش
تیسرا مسئلہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظریاتی کنفیوژن کا ہے جہاں ایک طرف اعلیٰ پولیس حکام ان سے ہتھیار چھین کر ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھما دیتے ہیں اور دوسری طرف پولیس اہلکاروں کی شہادت کے بعد ان کو مارنے والوں کو رہا کر دیتے ہیں۔ یہ مسئلہ عسکری اداروں کے سربراہان سے لے کر پولیس کے کانسٹیبلز تک آتا ہے۔ یہی پولیس افسران جب طلبہ پر تشدد کرتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی سی چمک عود آتی ہے اور سینے میں ایک تڑپ ہوتی ہے جس کا اظہار ان کے ڈنڈے کے ذریعے ہوتا ہے۔ خصوصاً جب یہ طلبہ بلوچ یا پشتون علاقوں سے تعلق رکھتے ہوں جن سے پنجاب پولیس کا فطری تعصب بھی ان کے قدموں کی دھمک میں جھلک رہا ہوتا ہے کیونکہ یہاں نظریاتی تقسیم واضح ہے۔
یہی پولیس لیکن جب 'غلامیِ رسول میں موت بھی قبول ہے' کے نعرے لگاتی تحریکِ لبیک کے کارکنان سے برسرِ پیکار ہوتی ہے جو خود بھی یہی نعرہ لگا رہے ہوتے ہیں تو اس کا غصہ ویسے ہی کچھ ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔ سہیل وڑائچ کے الفاظ میں تحریکِ لبیک جو کچھ کر رہی ہوتی ہے، وہ وہی ہے جو تحریکِ انصاف کہہ رہی ہوتی ہے اور ہمارا المیہ ہے کہ معاشرہ بھی انہی نعروں کا اسیر ہے۔ جس طرح عمران خان صاحب اور ان کے استادِ محترم حمید گل مرحوم اور روحانی پیشوا اوریا مقبول جان برسوں طالبان کو اپنے بچھڑے بھائی بتاتے رہے، تحریکِ لبیک میں بھی ہماری حکومت اور پولیس کو اپنے بچھڑے بھائی نظر آتے ہیں۔ ایسے میں کئی بار تو یہ جذبہ بھی سر اٹھاتا ہوگا کہ کاش ہم اس لڑائی میں اپنے پیٹی بھائیوں کے خلاف اپنے دینی بھائیوں کا ساتھ دے رہے ہوتے۔ ایسے میں تصادم کا نتیجہ یکطرفہ ہونا لازمی سا امر ہے۔
یہ تیسرا مسئلہ حل کرنے کے لئے تو ایک طویل المدتی پالیسی کی ضرورت ہے لیکن پہلے دو کے لئے حکومت کو اپنی پولیس اصلاحات کے ایجنڈے کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا جو اس نے اپنے دیگر انتخابی نعروں کی طرح یوں بھلا دیا ہے گویا یادداشت ہی بھول گئی ہو۔