پاکستان میں نہ تو کوئی اس ناکامی کی وجوہات جاننے کی کوشش کر رہا ہے اور نہ ہی اس پر کوئی سوچ بچار کی جا رہی ہے کہ مستقبل میں ایسے گروہوں کا کس طرح سے سدباب کیا جائے۔ اس کے بجائے پاکستان کی طاقتور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے ذریعے حکومت اور اس کالعدم تنظیم کے درمیان معاہدہ ہو چکا ہے۔
اب یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ پولیس کو بااختیار بنانے، اصلاحات کرنے اور اسے لیس کرنے کے معاملے میں اس کا مستقبل بہت تاریک ہو چکا ہے۔ ہمارے حکمران اور نہ ہی ہماری طاقتور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ یہ چاہتی ہے کہ پولیس کو مکمل طور پر لیس اور ریفارم کیا جائے۔ اس معاملے میں دونوں کی اپنی اپنی وجوہات ہیں۔
مذہبی مظاہروں سے نمٹنے میں ناکامی نے پولیس فورس کی تربیت، قیادت کے فقدان اور اتحاد کی کمی کو آشکار کرکے رکھ دیا ہے۔ انہیں اپنی حفاظت کیلئے مناسب سیکیورٹی سامان فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن پرتشدد مظاہروں سے نمٹنے کے لیے پولیس پوری طرح لیس ہی نہیں ہے۔
بدقسمتی سے پولیس نے ملکی فوج کی طرح ایک یونٹ اور خاندان کی طرح بننا نہیں سیکھا۔ فوج اپنے حاضر سروس اور ریٹائرڈ اہلکاروں کو سہولیات مہیا کرتی ہے جن میں ان کیلئے گھروں کی تعمیر، تعلیمی اداروں کا قیام، ہسپتال اور فلاحی ادارے شامل ہیں۔ اس کا پولیس فورس سے کسی بھی طرح سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔
موجودہ صورتحال میں پولیس کی بہترین مثال وردی میں ملبوس ایک ایسے ہجوم کی طرح ہے جو بغیر قیادت کے بے سمت ہے۔ ان کی ٹریننگ پر بات کی جائے تو اس کی بھی مکمل تیاری نظر نہیں آتی۔ خواہ وہ نظریاتی محاذوں پر لڑنے کی بات ہو یا ان کی ذہنی صلاحیت۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ںظریات کو غیر مبہم ہونا چاہیے جب انھیں ایسے گروہوں کیخلاف ریاست کی رٹ قائم کرنا ہو جن کی مذہبی وابستگی ان کے جیسی ہی ہو۔ مزید یہ کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے سیاسی اونرشپ کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔
تاہم یہ بات حقیقت ہے کہ جب بھی پولیس کو ایسے انتہا پسند مذہبی گروہوں کی جانب سے پیدا کردہ امن عامہ کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا گیا تو انہوں نے تیاری نہ ہونے کے باوجود ان کیخلاف سخت جدوجہد کی۔ لیکن ہر بار حکومت پولیس اہلکاروں کی قربانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کالعدم تنظیم کے ساتھ نیا معاہدہ کر لیتی ہے۔ دوسری طرف، پولیس کے کام میں سیاسی عمل دخل بڑھتا جا رہا ہے، جس کی بنیادی وجہ ہماری "تھانہ کچہری" سیاست کا بدقسمت کلچر ہے۔