عمران خان اس بار اقتدار میں آئے تو ہی ان کے نئے نئے مداح بنے پاکستانی 'اینٹی اسٹیبلشمنٹ لبرل' خواتین و حضرات کو اس بات کا احساس ہوگا کہ جس معاشرے کو عمران خان فوج کی اجارہ داری سے پاک کروا رہے تھے، وہ پہلے سے کہیں زیادہ شدت پسند اور متعصب ہو چکا ہے۔ جو تھوڑی بہت جمہوریت پہلے سے پاکستان کے معاشرے میں موجود ہے اس کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ کیوں کہ دنیا کی سیاسی انقلاب کی تاریخ میں اکثر ایسا ہوتا آیا ہے کہ عوام نے زیادہ جمہوریت اور زیادہ آزادی حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کی اور نئے انقلاب کے بہاؤ میں بہہ کر سٹیٹس کو کو خراب کر دیا جس کے بعد نتائج ویسے نہ نکل سکے جن کی توقع انہوں نے کر رکھی تھی۔ ہمارے اڑوس پڑوس میں ہی ایسی مثالیں موجود ہیں۔
پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد جرمنی کو ٹریٹی آف ورسائلز سے بہت سارے تحفظات تھے۔ جرمن قوم کو لگتا تھا کہ امریکہ، روس، فرانس اور برطانیہ نے ان کے ساتھ ایک محکوم قوم جیسا سلوک کیا ہے اور جرمنی کو جغرافیائی اور اقتصادی طور پر نقصان پہنچایا ہے۔ نیز یہ کہ جرمن قوم کے غرور کو زخمی کیا گیا ہے۔ جرمن قوم کی انہی محرومیوں اور بے عزتی کے احساس کو ہٹلر نے اپنے سیاسی نعروں کا مرکز بنایا اور بے پناہ مقبولیت حاصل کی اور اقتدار کی کرسی پہ پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ ہٹلر کی 'Absolutely Not' پالیسی نے جرمن قوم کو پورے یورپ کے مدمقابل لا کھڑا کیا اور چند ہی برسوں میں انسانی تاریخ کی سب سے خطرناک جنگ، یعنی دوسری عالمی جنگ چھڑ گئی۔
پھر یہ منظر بھی ساری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح جنگ کے خاتمے کے بعد روسی افواج برلن میں داخل ہو رہی تھیں۔ اس وقت جس سطح کی بے عزتی اور بے بسی کا سامنا جرمن قوم کو کرنا پڑا وہ ماضی کی اس بے عزتی اور نقصان سے کہیں زیادہ تھا جس کو جواز بنا کر ہٹلر نے جرمن قوم کو جنگ میں جھونک دیا تھا۔
بالکل اسی طرح روس کے عوام نے روس پہ صدیوں سے حکمرانی کرنے والی رومانوف فیملی کے آخری شہنشاہ نکولیس دوئم کو ان کے خاندان سمیت مار کر لینن کے مارکسی نظریات پر سوشلزم کا انقلاب لانے کی حمایت کی۔ مگر پھر یہ بھی دنیا نے دیکھا کہ لینن کے بعد جوزف سٹالن کے اقتدار میں آنے کے بعد روس کے عوام شہنشاہیت کے دور کے مظالم کو بھول گئے۔
عمومی طور پر ہر انقلاب اور خاص طور پر سیاسی انقلابات کے ساتھ یہ ستم ہوتا آیا ہے کہ انقلاب کے بعد ایسی قوتیں برسر اقتدار آتی ہیں جو انقلاب کا رخ موڑ دیتی ہیں اور عوام پھر سے ماضی کے حالات کو یاد کر کے خود کو کوستے رہتے ہیں۔ سیاسی نعروں اور پاپولزم کے زور پر آنے والی حکومتوں کے ساتھ اکثر یہ مسائل دیکھنے کو ملے ہیں کہ ان کے نعروں اور حکومتی پالسیوں میں ایک کھوکھلا پن پنہاں ہوتا ہے۔ ان کے پاس ملکی اقتصادی حالات کو بدلنے کے لئے کوئی مؤثر اور مربوط منصوبہ نہیں ہوتا۔
عمران خان کی 2018 والی حکومت میں زیادہ انحصار نوکریوں اور گھروں والے وعدوں پر تھا جن میں کوئی بھی منصوبہ عملی جامہ نہ پہن سکا۔ ملک کی معاشی صورت حال شدید بگڑ چکی تھی۔ حکومت کے جانے سے پہلے بھی وہ بار ہا اقبال کرتے ہوئے پائے گئے کہ ان کی حکومت میں آنے کی تیاری نہیں تھی۔ مگر وہ اپنے انقلابی نعروں اور پر کشش بیانیے کی بدولت عوام میں پھر سے مقبول ہو گئے اور پہلے سے بھی زیادہ اکثریت لے کر اقتدار میں آنے کے لئے پر تول رہے ہیں۔
اس طرح کے ناکام اور مصنوعی انقلابات میں ہوتا کیا ہے کہ آپ زیادہ آزادی اور زیادہ جمہوریت کے سراب میں ایک خطرناک آمرانہ حکومت کے زیر سایہ چلے جاتے ہیں۔ اور بدقسمتی یہ ہے کہ وہاں سے واپسی پھر سے ایک خونی اور تصادم کے ارتقائی مراحل سے ہو کر آتی ہے۔ مگر اس حقیقت کا احساس ہونے تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
عمران خان کا سارا فوکس اپنے بیانیے کی تشکیل اور ترویج پر ہے۔ ان کے پاس کوئی جامع منصوبہ نہیں ہے جس کے ذریعے وہ ملک کو درپیش اقتصادی، سیاسی اور سکیورٹی مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ ان کی 2018 والی الیکشن مہم بہت سے اقتصادی اور ترقیاتی منصوبوں سے بھر پور تھی۔ مگر حکومت میں ان منصوبوں پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ان کو اور ان کی پارٹی کو خفت کا سامنا کرنا پڑا۔ درحقیقت تو یہ منصوبے قابلِ عمل تھے ہی نہیں۔
تاہم، اب وہ بہت حقیقت پسند ہو گئے ہیں کہ جب نعروں اور دائیں بازو کی سیاست سے کام ہو جاتا ہے تو اقتصادی منصوبے سوچنے پر وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ ایک میکنزم ہے جس کے ذریعے آپ اپنی سیاسی اور اقتصادی ناکامیوں کو صرف نعروں اور بیانیے کے ذریعے چھپا سکتے ہیں۔ اور پھر اپنے حمایتیوں کو بیوقوف بنانے میں انہیں ایسا ملکہ حاصل ہو چکا ہے کہ یہ ان سے سوال کرنے کی بجائے ان کی ہر دلیل پر یوں یقین کر لیں گے گویا کوئی آسمانی صحیفہ پڑھ کر سنایا گیا ہو۔