بلوچوں کو نسلی اعتبار سے جھوٹے احساسِ تفاخر میں مبتلا کیا گیا؟

02:03 PM, 5 Nov, 2022

جام سعید احمد
بلوچ دانش ور طبقے نے بلوچوں سے متعلق مختلف قسم کے نسلی ابہام پھیلا رکھے ہیں۔ ان ابہام کا مقصد بظاہر یہی دکھائی دیتا ہے کہ بلوچوں کا تعلق ایسے نسلی گروہوں سے جوڑا جائے جو کسی زمانے میں طاقت ور کی حیثیت سے دنیا کے بڑے حصے پر قابض تھے اور جن کا نام فاتحین میں لیا جاتا ہے۔ آپ بلوچوں سے متعلق بلوچ لکھاریوں کی تحقیقات دیکھ لیں، بلوچ دانش ور طبقے نے بلوچوں کے نسلی رشتے فاتحین سے جوڑے ہیں۔ اِن کی کتب پڑھ کر دیکھ لیں، ہر لکھاری بلوچوں کا تعلق کسی نہ کسی فاتح سے جوڑتا دکھائی دے گا یا کسی نہ کسی مشہور بادشاہ سے اِن کا نسلی تعلق جوڑتا دکھائی دے گا۔

محققین اور خود بلوچ لکھاری اس بات پر متفق ہیں کہ بلوچ ملک شام کی وادی حلب سے 6 سو سال قبل چراگاہوں کی تلاش میں اپنے مال مویشیوں کے ساتھ ہجرت کر کے عمان اور ایران کے راستے وادی سندھ میں داخل ہوئے تھے۔ اس تلاش و جستجو اور ہجرت نے اِن کو کسی ایک جگہ ٹک کر نہ رہنے دیا، خانہ بدوش بود و باش ان کے کلچر کا حصہ بن گئی۔ بھوک افلاس کی وجہ سے ان کے اندر وحشت جیسی حیوانی جبلت بیدار ہوئی اور چھین کر کھانا ان کی فطرت ثانیہ کا حصہ بن گیا۔ کیونکہ یہ لوگ جس جگہ بھی رہے، اقلیت میں رہے۔ اس وجہ سے مختلف تہذیبوں و قومیتوں کا حصہ بنتے رہے اور آج بھی یہی حال ہے کہ بلوچوں کے کلچر میں سرائیک تہذیب و تمدن کے ساتھ ساتھ عربی، ایرانی اور سندھی تہذیب و تمدن کی جھلک نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچوں کی غالب اکثریت کی مادری زبان بلوچی کے بجائے فارسی، براہوی، سرائیکی، سندھی، کردی اورعربی ہے۔ اب بھی یہ عرب النسل گروہ مختلف قومیتوں کا حصہ ہیں۔ ان کو خانہ بدوش کا لقب وادی سندھ سے ملا ہے۔ بہرحال اس پر اب تک بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، ابھی بھی لکھا جا رہا ہے اور آنے والے زمانوں میں بھی لکھا جاتا رہے گا۔

بلوچوں کی نسلی پہچان سے متعلق بعض بلوچ لکھاریوں نے طرح طرح کے افسانے گڑھ رکھے ہیں جن کا مقصد بظاہر تو یہ ہے کہ بلوچوں کا نسلی رشتہ طاقتور حکمران طبقات سے جوڑا جائے۔ اسی باعث کچھ لکھاری بلوچوں کا جد امجد نمرود تک کو لکھتے ہیں۔ کچھ بلوچ دانش ور بلوچوں کا نسلی رشتہ تہذیب بابل کے بادشاہ سے جوڑتے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ طبقات بلوچوں کو حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی نسل سے ملاتے ہیں۔ اکثریت کی تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ بلوچوں کا ڈی این اے عربی النسل ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ تمام نظریات فاسق، باطل اور من گھڑت ہیں۔ جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ اکثریت کا تعلق مقامی نسلی گروہوں سے ہے جنہیں جبری طور پر قومیت تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا اور وہ بلوچ بنا دیے گئے۔

یہ امر حیران کن ہے کہ اپنے نام کے ساتھ بلوچ لکھنے والوں کی اکثریت سرائیک جتوال / ڄٹاکا ڈی این اے کی حامل ہے۔ مثال کے طور پر بگٹیوں کا ڈی این اے Y-DNA \ J2B M241 ہے جو کہ جام ہیں لیکن بگٹی اپنے ناموں کے ساتھ خان لکھتے ہیں حالانکہ انہیں اپنے ناموں کے ساتھ جام لکھنا چاہئیے۔

عرب ایک وسیع الوجود قومیتی گروہ ہے۔ بلوچوں کا لائف سٹائل مختلف علاقوں میں مختلف نوعیت کا ہے۔ دراصل جسے بلوچ کلچر کہا جاتا ہے وہ عرب کلچر سے متاثر دکھائی دیتا ہے۔ ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ بلوچ دانش ور طبقے نے اتنا بڑا ابہام یا فراڈ کیوں پیدا کیا؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بلوچ چونکہ خانہ بدوش گروہ ہیں جو لگ بھگ 6 صدیاں قبل میدانی علاقوں کی تلاش میں وادی سندھ کی جانب نکل آئے تھے۔ خانہ بدوش کا لقب بلوچوں کو خود وادی سندھ سے ملا ہے، ورنہ دوسرے خطے کے لوگ ان کو کچھ اور پکارتے ہیں۔ خانہ بدوش کی ایک فطری جبلت ہوتی ہے۔ بہرحال ہم سب سے پہلے مختلف محققین کی تحقیقات پیش کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ بلوچوں سے متعلق کیا نظریاتی نکتہ نظر رکھتے ہیں۔

بلوچ شناخت سے متعلق حوالہ جات:

نیچے دی ہوئی تحقیقات و مندرجات مختلف کتابوں سے نقل کی گئی ہیں۔ کسی بھی تحقیق یا نظریے کا تعلق کالم نگار کی ذاتی خواہش، پسند یا ناپسند سے نہیں ہے۔ ان نظریات کو معروضی طور پر دیکھا جانا چاہئیے۔

1۔ ٹی ڈبلیو وال بنک (T. W. Wall Bank) اور ان کے معاون ایم ٹیلر (M. Taylor) لکھتے ہیں کہ بلوچ سامی النسل ہیں جو حضرت نوح علیہ السلام کے صاحبزادے حضرت سام کی نسل سے ہیں۔
یہاں یہ بتاتا ضروری ہے کہ عرب خود کو سامی النسل کہتے ہیں اور سامی النسل پکارا جانا پسند کرتے ہیں۔

2۔ دوسری تحقیق یہ کہتی ہے کہ بلوچوں کا تعلق نمرود سے ہے۔ یہ تحقیق کرنے والا غیر ملکی محقق پروفیسر راولنسن (Prof. Rawlinson) تھا۔ اس نے بلوچوں کو نمرود کی اولاد لکھا اور انھیں کالدین اقوام سے منسوب کیا۔

3۔ ایک بلوچ لکھاری محمد سردار خان بلوچ پروفیسر راولنسن کی تقلید کرتے ہیں اور بعد از تحقیق بلوچوں کو سامی النسل بتاتے ہیں۔ محمد سردار خان بلوچ نے سامی نسل سے منسلک کرتے ہوئے کلدانیوں کی کوش (Kosite) شاخ کی باقیات گردانتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بلوچ گروہ کا تعلق کلدانی کوش حکمرانوں کی نسل سے ہے اور نمرود بیلوس کی اولاد ہیں جو بابل کا حکمران تھا۔ کلدانیوں کے خاتمے پر یہ وہاں سے ہجرت کر کے عرب، ایران، سیستان اور پھر کیچ مکران آ کر آباد ہوئے۔

4۔ سر ٹی ہولڈچ (Sir T. Holdich) بھی کلدانی نظریہ تحقیق کے حامی ہیں جو بلوچوں کو کلدانیوں سے منسوب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ لفظ 'بعل' جو کہ کلدانی دیوتا تھا بگڑ کر 'بعلوث' بنا اور بعدازاں 'بلوچ' ہو گیا۔

5۔ بعض ملکی و غیر ملکی مؤرخین کہتے ہیں کہ بلوچ حضرت نوح علیہ السلام کے پوتے فارک بن سام بن نوح کی اولاد ہیں۔

6۔ بعض مؤرخین بلوچوں کو راجپوت نسل سے بھی جوڑتے ہیں۔ راجپوتوں کا ایک قبیلہ 'بل اوچھا' ہے۔ بل اوچھا قبیلے کا لقب بلوچ رہا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ سرائیک تہذیب و تمدن میں بلوچا کا لقب بہت مشہور و معروف ہے۔ سرائیکی شاعری بھی بلوچا نام سے بھری پڑی ہے۔

7۔ ایک تحقیق یہ بھی کہتی ہے کہ بلوچ دراصل سرائیک نسلی گروہ ہے جو اوچ میں تباہ کن زلزلہ آنے کے بعد یا بہت بڑے دریائی سیلاب کے بعد دنیا کے مختلف حصوں کی جانب ہجرت کر گئے تھے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ آج بھی سرائیک روایت کے مطابق بلوچ سرائیک قوم کی ذات کہلاتے ہیں کیونکہ بلوچوں کے رہن سہن پر سرائیک تہذیب و تمدن کا بہت زیادہ غلبہ نظر آتا ہے۔

8۔ ایک تحقیق یہ بھی کہتی ہے کہ بلوچ بحیرہؑ کیسپیئن کے مشرقی ساحل سے ہجرت کر کے عمان و ایران پہنچے اور وہاں سے وادی سندھ میں داخل ہوئے۔

9۔ بلوچوں کے بہت سارے قبائل کا ماننا ہے کہ وہ عرب النسل ہیں اور ان کے آباؤ اجداد نے ملک شام سے ہجرت کی تھی۔ مشرق وسطیٰ کا یہ علاقہ جنگوں کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ مختلف ادوار میں ان علاقوں میں خانہ جنگی رہی ہے۔ آج بھی یہ علاقے خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہیں۔ بلوچ قبائل خود کو عربوں کا وارث سمجھتے ہیں۔

10۔ فاروق بلوچ اپنے دلائل میں لکھتے ہیں کہ بلوچ حضرت نوح علیہ السلام کے دوسرے بیٹے 'حام' کی نسل سے ہیں یعنی 'نمرود بن کوش بن کنعان بن حام بن نوح' سے۔

خانہ بدوش گروہ کی فکری نفسیات

خانہ بدوش نفسیات کا جائزہ لیں تو خانہ بدوش لوگ حصول معاش کی خاطر متحرک رہتے ہیں اور جہاں پڑاؤ ڈالتے ہیں وہاں کے تہذیب و تمدن میں رچ بس جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ برطانوی مصنف کرنل ای موکلر، حانیکوف، بوٹینگر، آر برٹن اور ٹی ایچ ہولڈچ نے اپنے تحقیقی مقالوں میں بلوچوں کو یا تو خانہ بدوش لکھا ہے یا پھر ان کا تعلق عرب ملک شام کی وادی حلب سے جوڑا ہے۔ بلوچوں کے اپنے دانش ور اور لکھاری اس بات پر متفق ہیں کہ بلوچ ملک شام کی وادی حلب سے بے دخل ہوئے اور حجاج بن یوسف کے دور میں عمان و ایران میں داخل ہوئے۔ جہاں تک بلوچوں کے قومیتی یا غیر قومیتی ہونے کا سوال ہے، یہ بات ان کی خانہ بدوش فطرت کا حصہ ہے کہ بلوچ خانہ بدوش فطرت کی وجہ سے موسمی حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ لوگ جس بھی خطے میں گئے وہاں کے رسم و رواج کو اپنایا اور وہاں رچ بس گئے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ آپ کو مختلف زبانیں بولتے دکھائی دیتے ہیں۔

بلوچ لکھاریوں نے نسلی ابہام کیوں پیدا کیا؟

بلوچ لکھاری نسلی ابہام پیدا کرکے یہ ثابت کرنے میں لگے رہے اور اب تک لگے ہوئے ہیں کہ بلوچ نسل کا تعلق حکمران طبقات سے رہا ہے۔ اوپر دیے گئے حوالوں میں بھی اس نفسیات کی جھلک دکھائی دیتی ہے کہ بلوچ نسل کا تعلق اسی شخص سے جوڑا جاتا ہے جو حکمران رہا ہے۔ ایسا کسی نے بھی نہیں لکھا کہ بلوچ نسل کا تعلق ایسے شخص سے ہے جو کسی بھی علاقے کا حکمران نہیں تھا۔ ایسی کوئی تحقیق آج تک سامنے نہیں آئی حالانکہ یہ پوری سچائی نہیں ہے۔ نسلی فراڈ یا نسلی ابہام پھیلانے کا مقصد صرف یہی ہے کہ مقامی گروہوں کو بلوچ لقب ترک کرنے سے روکا جائے تاکہ مقامی نسلی گروہ اس فراڈ یا نسلی ابہام کی چال میں پھنس کر رہ جائیں۔

اس کے پس پردہ دراصل یہ منصوبہ کارفرما نظر آتا ہے کہ بلوچوں نے جن اقوام کے لیے فوجی خدمات انجام دیں انہوں نے بلوچوں پر یہ نفسیاتی حربے استعمال کیے تاکہ بلوچ نسلی تفاخر کے نشے میں مست رہ کر ان طاقت ور حکمرانوں کے لیے فوجی خدمات سرانجام دیتے رہیں، ان کی فوجی مہمات کا حصہ رہیں اور ان کے وفادار بن کر رہیں۔ محققین نے جس قسم کا فراڈ پھیلایا ہے تو شاید ہی کبھی اس سوال کا جواب مل سکے کہ بلوچ اصل میں کون ہیں۔ بلوچوں سے متعلق نسلی فراڈ پھیلانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ کبھی معلوم نہ ہو سکے کہ دراصل بلوچ کون ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ بلوچ ان خانہ بدوشوں کو کہا گیا ہے جو مختلف حملہ آوروں کی پیادا فوج کا حصہ بن کر ان کے ہمراہ رہے۔ مہمات کے خاتمے کے بعد جب ان حملہ آوروں کی واپسی ہوئی تو کسی غرض یا مجبوری کے تحت یہ لوگ حملہ آوروں کے ہمراہ واپس نہ جا سکے اور وادی سندھ کے علاوہ ایران اور عرب خطے کے مختلف علاقوں میں رچ بس گئے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ خانہ بدوش مختلف خطوں یا قومیتوں میں مختلف ناموں سے جانے جاتے ہیں اور مختلف زبانیں بولتے دکھائی دیتے ہیں۔ مختلف خطوں میں ان کے لیے مختلف نام عام رہے ہیں۔ بعد ازاں ان لوگوں نے بلوچ کا لقب اختیار کر لیا۔

جہاں تک اس کے سدباب کا تعلق ہے تو یہی ہو سکتا ہے کہ مقامی گروہ اس نفسیات سے خود کو الگ کریں جس نے انہیں جکڑ رکھا ہے۔ بلوچ قومیت سے تعلق رکھنے والے افراد کو چاہئیے کہ اپنی اصل پہچان تلاش کرنے کے لیے اس دوغلی شناخت سے جان چھڑائیں اور اس بات کو سمجھیں کہ بلوچ دانش وروں کی جانب سے پھیلایا گیا نسلی تفاخر کا بیانیہ فراڈ اور جھوٹ ثابت ہو رہا ہے۔
مزیدخبریں