پاکستان میں حال ہی میں مسلسل تیسری مرتبہ جمہوری طریقے سے منتقلی اقتدار کا مرحلہ بخوبی سر انجام پایا ہے۔ موجودہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے اپنی انتخابی مہم میں پاکستان کو درپیش بنیادی مسائل کو اجاگر کیا تھا اور ان میں سے ایک اہم مسئلہ پاکستان کی ڈوبتی ہوئی معیشت کا تھا۔ غالباً ہر ذی شعور شخص یہ بات جانتا ہے کہ ہمارے ملک کی معیشت اس وقت مضبوط نہیں ہے۔ موجودہ حالات میں یہ بحث لاحاصل ہے کہ ہماری معیثت کو اس حال تک پہنچانے کے زمہ دار افراد یا کردار کون ہیں؟ البتہ ہمیں معیشت کو مزید خسارے میں جانے سے روکنے کے لئے ممکنہ اقدامات پر بحث کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف مندرجہ ذیل اقدامات اٹھا کر نہ صرف معیشت کو بحالی کی جانب لے جا سکتے ہیں بلکہ ان تجاویز کو عملی جامہ پہنا کر عمران خان اور ان کی جماعت وہ کام سرانجام دے سکتے ہیں جو گذشتہ چالیس برسوں سے کسی حکومت سے نہیں ہو پایا۔(کیونکہ وہ تمام حکومتیں 'کرپٹ' تھیں)
جی ڈی پی اور ٹیکس کے درمیان تناسب بہتر کرتے اسے خطے کی باقی معیشتوں (بنگلہ دیش، بھارت، تھائی لینڈ، فلپائن اور اردن) کی مانند بائیس سے پچیس فیصد تک لایا جا سکتا ہے۔
پاکستان کی موجودہ ٹیکس ٹو حی ڈی پی کی شرح محض آٹھ فیصد ہے۔ پرویزمشرف نے جب اقتدار سنبھالا تھا تو اس وقت یہ شرح 13 فیصد کے لگ بھگ تھی لیکن جب جنرل پرویز مشرف نے اقتدار چھوڑا تو یہ آٹھ فیصد پر آ چکی تھی۔ جنرل مشرف نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر اس طرح کی معاشی پالیسیاں مرتب کیں جن کی وجہ سے ایسے لوگوں کو فائدہ پہنچا جو ٹیکس ادا نہیں کرتے تھے، نتیجتاً ہماری ڈاکیومینٹڈ معیشت مزید سکڑتی چلی گئی۔ اس کے علاوہ پاکستان میں آبادی کے تناسب سے ٹیکس اکٹھا کرنے کی شرح دنیا میں کم ترین قرار دی جاتی ہے۔ تحریک انصاف کو ٹیکس نیٹ کو بھی بڑھانا پڑے گا، بصورت دیگر اگر تحریک انصاف ایسا کرنے میں ناکام رہتی ہے تو گذشتہ حکومتوں کی پالیسیوں اور تحریک انصاف کی پالیسیوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہو گا۔
اگر عمران خان اور تحریک انصاف پاکستان کو کسی بھی سپر پاور کی غلامی سے بچانا چاہتے ہیں تو انہیں معیشت کو ڈاکیومینٹڈ کرنا پڑے گا۔
اگر تحریک انصاف اور عمران خان اپنی انتخابی مہم کے دوران بلیک اکانومی ختم کر کے معیشت کو ڈاکیومینٹڈ معیشت میں تبدیل کرنے کا وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہے توگذشتہ حکومتوں کے سربراہان کی مانند عمران خان کو بھی امداد کا کشکول تھامے دنیا بھر سے بھیک مانگنی پڑے گی اور اپنی فوج کی خدمات کو سامراجی قوتوں کی جنگوں میں بیچنا پڑے گا۔ یہ سامراجی قوتیں معمولی سی رقم کے بدلے ہمارا استحصال کر کے ہماری ہوائی بیس، زمین، فوجیوں اور جہادیوں کو اپنے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کریں گی جیسا کہ جنرل ضیاالحق اور جنرل مشرف کے ادوار میں کیا گیا۔ ہم نے ان کی جنگ لڑی تھی اور پھر یہ ہماری اپنی جنگ بن گئی کیونکہ طالبان نے ہماری افواج اور ہمارے عام شہریوں کو قتل کرنا شروع کر دیا اور یہاں تک کہ مساجد اور گرجا گھروں پر خودکش بم حملوں کا بھی سلسلہ شروع کر دیا۔ اس جنگ نے ہمارے معاشرے میں لاقانونیت کو بھی فروغ دیا۔
امداد یا تحائف میں ملنے والی رقم کسی بھی قوم کی جی ڈی پی بڑھانے یا عوام کو روزگار تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے میں معاون نہیں ہوتیں۔
امداد سے نہ تو صنعتوں کو فروغ ملتا ہے اور نہ ہی اس سے برآمدات میں اضافہ ہوتا ہے اس وجہ سے صنعتوں اور کارخانوں میں نہ تو اضافہ ہونے پاتا ہے اور نہ ہی کاروباری مقابلے کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ اور نہ ہی اس کی مدد سے پاکستان میں بسنے والی دنیا کی سب سے بڑی نوجوانوں کی آبادی کو روزگار فراہم کر کے انہیں معاشی طور پر مستحکم کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے گذشتہ تیس برس سے یہی دیکھا ہے اور پاکستان کے قابل ترین معیشت دان جن میں محبوب الحق،عاطف میاں، اسد سعید اور حفیظ شاہ شامل ہیں وہ سب بھی اس بات سے متفق ہیں۔
بدقسمتی سے تحریک انصاف نے اپنا پہلا بجٹ پیش کرتے ہوئے ٹیکس کے تناسب کو مزید کم کر دیا؛ نان فائلرز کو مہنگی سے مہنگی گاڑیاں اور بڑے سے بڑے گھر خریدنے کی اجازت دے دی۔
یہ اقدام شاید کار ڈیلرز اور پراپرٹی سے منسلک اپنی جماعت کے عہدیداران کو خوش کرنے کے لئے اٹھایا گیا یا پھر کوئی ایسی انہونی وجہ جو صرف تحریک انصاف کے ذمہ داران ہی جانتے اور سمجھتے ہیں۔ اب وزیراعظم کو امیر اقوام کے پاس جا کر اپنی زمین اور اپنے آدمی بیچنا پڑیں گے۔
عمران خان کے حالیہ دورہ سعودی عرب میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان جو معاہدہ طے پایا ہے اس کی رو سے پاکستان سعودی عرب پر کسی بھی ممکنہ جارحیت یا خطرے سے نمٹنے کے لئے سعودی عرب کو دفاعی تعاون اور خدمات پیش کرے گا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ آخر سعودی عرب اس قدر عدم تحفظ کا شکار کیوں ہے؟ وہ بھی ایسے حالات میں جب اس نے یمن جیسے کمزور اور غریب ملک پر لشکر کشی کر رکھی ہے۔ یمن میں ہزاروں معصوم بچے سعودی جارحیت کا شکار ہو کر لقمہ اجل بن چکے ہیں اور ہم سعودی عرب کی اس طرح کی ظالمانہ کارروائیوں کو محض قرض اور امداد کی رقم حاصل کرنے کے لئے اپنی مدد پیش کرنے جا رہے ہیں۔ اگر ہم تاجروں، نان فائلرز، ٹیکس چوروں، کالے دھھندے چلانے والوں اور ٹیکس نہ دینے والوں سے ٹیکس حاصل کرنے کی پالیسی مرتب کرتے تو ہمیں یمن میں سعودی جارحیت کا ساتھ دینے کی کبھی کوئی ضرورت پیش نہ آتی۔ ستم ظریفی کی حد ہے کہ وزیراعظم کے دورہ سعودیہ کو عوام میں یہ کہہ کر بیچا گیا ہے کہ یہ دورہ نئے پاکستان کی ایک بہت بڑی کامیابی ثابت ہوا ہے۔
کیا ہی زبردست تبدیلی ہے!
خدا ہماری صنعت کو بچائے!
خدا ہمارے نوجوانوں کو بچائے!