یہ جملہ ہے Patriotism is the last refuge of a scoundrel۔ اب یہاں لفظ scoundrel کے بے شمار تراجم کیے جا سکتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی پارلیمانی زبان کے لحاظ سے بولنا درست نہیں ہوگا۔ لیکن باقی جملے کو یوں ترجمہ کیا جا سکتا ہے کہ ہر scoundrel کی آخری جائے امان حب الوطنی ہی ہوتی ہے۔ یعنی آپ کتنے ہی نااہل ہوں، کرپٹ ہوں، معیشت کا بیڑا غرق کر دیں، ملکی سرحدوں اور اس کے سفارتی مفادات کی حفاظت میں ناکام ہوں، عوام رو چیخ رہی ہو، ملک میں مہنگائی کا یہ عالم ہو کہ ایک ہی سال میں دو مرتبہ پچھلے تمام ریکارڈ ٹوٹنے کے درپے ہوں، لوگوں کی قوتِ خرید اتنی بھی نہ رہی ہو کہ متوسط طبقے کے افراد بھی دن میں دو وقت کی روٹی پیٹ بھر کر کھا سکیں، دوائیں عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہوں، بنیادی ضروریات حکومت کی ترجیحات تک میں شامل نہ ہوں، لیکن اگر کوئی تنقید کرے تو اس کو غدار قرار دے دیا جائے، سب ٹھیک ہو جائے گا۔
پاکستان میں یہ سلسلہ نیا نہیں ہے۔ 1954 میں مولوی فضل الحق عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آئے اور مشرقی پاکستان کے وزیر اعلیٰ بنے۔ گورنر جنرل غلام محمد کو فضل الحق قبول تھے لیکن تب جب ان کے پاس عوامی مینڈیٹ نہ ہو۔ فی الفور اسکندر مرزا کو گورنر بنا کر بنگال روانہ کیا گیا۔ فضل الحق کو بطور مشرقی بنگال کے وزیر اعلیٰ کے مغربی بنگال کے دورے کی دعوت ملی۔ کلکتہ میں کھڑے ہو کر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کسی بھی مہذب اور بنیادی سفارتی آداب سے معمولی سی بھی شدھ بدھ رکھنے والے انسان کی طرح، فضل الحق نے محض اتنا کہہ دیا کہ آج بیشک ہمارے درمیان سرحدیں ہیں لیکن ہم پھر بھی ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ یہاں وہ غل مچا کہ الامان۔ اخباروں نے لکھا کہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں پر حملہ ہو چکا، فضل الحق جس نے قراردادِ پاکستان پیش کی تھی، یعنی یوں کہا جائے کہ تحریکِ پاکستان حقیقی معنوں میں شروع کی تھی، وہ غدار قرار پایا۔ اسکندر مرزا نے حکومت الٹا دی۔ بعد ازاں وہی فضل الحق پھر سے قابلِ قبول ہو گیا اور پورے ملک کا وزیرِ داخلہ بنا دیا گیا۔ بس پہلے مسئلہ یہ تھا کہ عوامی امنگوں کا ترجمان کہلا سکتا تھا، تو غدار تھا۔ اب ہماری امنگوں سے بنا ہے، وطن کا محافظ ہے اور محافظ بھی ایسا کہ ملک کی ہر قانون نافذ کرنے والی ایجنسی قانونی طور پر اس کے زیرِ اثر ہے۔
حسین شہید سہروردی 1949 میں ہی غدار قرار پا کر مسلم لیگ سے علیحدہ ہو چکے تھے۔ موصوف کو ہر دو، اڑھائی برس بعد کسی نئے گناہ کی پاداش میں غدار قرار دیا جاتا تھا۔ کبھی نئی جماعت بنانے کے لئے تو کبھی جگتو فرنٹ کا حصہ بننے پر۔ پھر وزیر اعظم بن گیا تو غدار قرار دے کر ہی نکالا گیا۔ اور پھر آمر ایوب خان نے ایبڈو لگا کر تاحیات نااہل کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا بیروت میں انتقال بھی طبعی موت نہ تھا، لیکن چلیے اسے ایک طرف اٹھا رکھتے ہیں۔
پھر فاطمہ جناح کو کون بھول سکتا ہے؟ محترمہ نے اپنے بھائی کے بنائے ملک میں سیاست میں قدم رکھا تو کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ یہ لوگ ان سے بھی زیادہ محب الوطن ہونے کا دعویٰ کر ڈالیں گے۔ ایوب خان نے فاطمہ جناح کو بھی بھارتی اور افغانی ایجنٹ قرار دیا۔
آج کل سوشل میڈیا پر ایک اخباری تراشے کی تصویر بار بار دیکھنے میں آتی ہے جس میں پانی کے محکمے نے فاطمہ جناح کو خبردار کیا ہے کہ واجبات ادا کریں ورنہ جیل جانے کے لئے تیار ہو جائیں۔ جی ہاں، یہ وہی ملک تھا جہاں آئین کو پامال کر کے ایک آمر حکمران بنا بیٹھا تھا اور جیل وہ جا رہے تھے جن کے ذمہ پانی کے محکمے کی کچھ رقم واجب الادا ہونے کا الزام تھا۔
اب مسلم لیگ نواز کی شامت آئی ہوئی ہے۔ بات شروع تو ہوئی تھی نواز شریف کو غدار قرار کہنے سے۔ پھر کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف بھی غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا۔ حکومتی بزر جمہروں کی جانب سے مریم نواز کو بھی غدار قرار دینے کا سلسلہ ابھی جاری تھا کہ شاہدرے کا بدر رشید ولد رشید خان سب پر بازی لے گیا۔ اس ’محب وطن پاکستانی‘ نے (یاد رہے کہ شاہدرہ تھانے میں درج ایف آئی آر میں یہ الفاظ موصوف نے خود اپنے لئے استعمال کیے ہیں) پوری مسلم لیگ نواز کی پارلیمانی پارٹی پر ہی غداری کا الزام عائد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان سب لوگوں نے مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف کے ساتھ ایک کانفرنس میں ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی لہٰذا سب کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کیا جائے کیونکہ اس اجلاس میں نواز شریف نے ’ایک منتخب حکومت‘ کے خلاف بغاوت کی کھلے عام ترغیب دی۔
انہوں نے یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ یہ سب بھارت کے کہنے پر کیا جا رہا ہے۔ مزیداری کی بات تو یہ ہے کہ اس اجلاس میں لیفٹننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم بھی شامل تھے اور ایف آئی آر میں اس ریٹائرڈ جرنیل کو بھی ملک دشمن و باغی قرار دے دیا گیا ہے۔