لیکن تنظیم کے سربراہ مفتی نور ولی محسود نے حالیہ چند مہینوں کے دوران تحریک سے جدا ہونے والے گروپوں سمیت پانچ مختلف دھڑوں کو تحریک کی چھتری تلے دوبارہ سے جمع کرکے جیسے تنظیم کی وجود میں پھر سے ایک نئی روح پھونک دی ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ٹی ٹی پی میں ضم ہونے والی ان تنظیموں کی حیثیت اور طاقت کیا بدستور اسی طرح برقرار ہے یا ان میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔ تجزیہ کرنے سے پہلے یہاں ان گروپوں کا مختصراً تعارف اور جائزہ ضروری ہے۔
شہریار محسود گروپ
ٹی ٹی پی میں حالیہ دنوں میں سب سے پہلے شہریار محسود گروپ نے دوبارہ سے شمولیت اختیار کی۔ اس گروپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بنیادی طورپر یہ تنظیم دو بڑے گروہوں پر مشتمل ہے جس میں کمانڈر مخلص یار گروپ دوبارہ سے تحریک کا حصہ بنا ہے جبکہ دوسرا ولی محمد گروپ بدستور تحریک سے باہر ہے۔ بنیادی طور پر محسود طالبان کا یہ دھڑا حکیم اللہ محسود گروپ کے نام سے جانا جاتا رہا ہے۔ اس گروپ کو تحریک کا باغی دھڑا بھی کہا جاتا ہے جبکہ اس گروپ کی بغاوت کی وجہ سے تحریک کے کئی اہم کمانڈر بھی مارے جاچکے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نورولی نے اپنی کتاب ’ انقلاب محسود’ میں اس گروپ پر بھتہ خور اور حفیہ اداروں کے ’ جاسوس ’ جیسے سنگین الزامات لگائے ہیں تاہم اس کے باوجود اسے دوبارہ سے تحریک کا حصہ بنایا گیا۔
جماعت الحرار اور حزب الحرار
یہ مہمند ایجنسی کے شدت پسندوں کا ایک اہم اور بڑا گروپ سمجھا جاتا ہے جو تقربناً چھ سال تک تحریک طالبان کا حصہ رہا۔ تاہم دو ہزار تیرہ میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد پہلی مرتبہ تحریک میں امارت کے معاملے پر اختلافات کھل کر سامنے آئے جس کے بعد یہ دھڑا کمانڈر عمر خالد خراسانی کی سربراہی میں تحریک سے الگ ہوا اور کچھ دیگر چھوٹے گروپوں کی توسط سے جماعت الحرار کے نام سے ایک نئی تنظیم بنائی۔ ٹی ٹی پی سے جدا ہونے والے دھڑوں میں ضلع مہمند کے طالبان کا شمار سب سے بڑے گروپوں میں کیا جاتا رہا ہے ۔
تاہم چند سال پہلے اس عمر خالد گروپ میں بھی اختلافات سامنے آئے اور عمر مکرم کے نام سے ایک اور گروپ نے تنظیم سے منحرف ہوکر حزب الحرار کے نام سے ایک الگ گروپ بنا لیا۔ حزب الحرار گزشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان میں خاصا سرگرم رہا ہے اور اس گروپ نے قبائلی اضلاع، خیبر پختونخوا اور پنجاب تک کے علاقوں میں حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جبکہ اس دوران جماعت الحرار کی کاروائیاں کم ہی دیکھنے میں آئی۔
استاد احمد فاروق اور امجد فاروقی گروپ
استاد احمد فاروق کا شمار عالمی شدت پسند تنظیم القاعدہ برصغیر شاخ کے بانیوں میں کیا جاتا ہے۔ وہ القاعدہ برصغیر کے نائب امیر تھے جب 2015 میں سرحد پار افغانستان میں ایک امریکی ڈرون حملے کا نشانہ بنے۔ ان دنوں امریکہ نے یکے بعد دیگرے کئی ڈرون حملے کئے جس میں القاعدہ برصغیر کے تقربناً پچاس افراد مارے گئے تھے۔ اس گروپ کے کمانڈر منیب نے حال ہی میں ٹی ٹی پی میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔ اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے قیام میں بھی القاعدہ کی کوششیں شامل تھیں تاہم اس طرح کبھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ القاعدہ کا پورا کا پورا گروپ کسی پاکستانی طالبان تنظیم کا حصہ بنا ہو۔اس کے ساتھ ساتھ امجد فاروقی گروپ بھی ٹی ٹی پی میں شامل ہوا ہے۔ امجد فاروقی کا شمار پاکستان میں القاعدہ کے ابتدائی کمانڈروں میں کیا جاتا ہے۔ یہ گروپ جی ایچ کیو اور سری لنکن ٹیم جیسے بڑے بڑے حملوں میں ملوث رہا ہے۔
سیف اللہ کرد گروپ
یہ کالعدم شدت پسند سنی تنظیم لشکر جھنگوی کا ایک دھڑا سمجھا جاتا ہے جو بلوچستان اور سندھ میں مختلف دہشت گرد کاروائیوں میں ملوث رہا ہے۔ دو ہزار سات میں جب ٹی ٹی پی کا وجود عمل میں لایا گیا تو اسوقت بھی سنی شدت پسندوں کے کئی دھڑے تحریک کا حصہ بنے تھے۔
لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی کی طرف سے پھر سے منحرف دھڑوں کو دوبارہ سے تنظیم کا حصہ بنانا کیا پیغام دیتا ہے اور یہ کہ یہ اتحاد ریاست پاکستان کےلیے کتنا بڑا چیلنج ثابت ہوسکتا ہے؟
گزشتہ کچھ سالوں سے ٹی ٹی پی کے کئی بڑے رہنما جن میں بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود، قاری حسین، مفتی ولی الرحمان ، خالد محسود سجنا اور مولانا فضل اللہ قابل ذکر ہیں، پاکستان یا افغانستان میں امریکی ڈرون حملوں میں مارے گئے جس سے تنظیم نہ صرف کافی حد تک کمزور ہوئی بلکہ دھڑے بندی کا بھی شکار ہوئی جس سے تنظیم غیر فعال سی ہوگئی تھی۔ تاہم تقریباً دو سال قبل جب مفتی نور ولی محسود نے تنظیم کی سربراہی سنبھالی تو اس نے سب سے پہلے منحرف ہونے والے دھڑوں سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا اور اس جانب بھرپور توجہ دی۔ ویسے تو ناراض گروپوں سے بات چیت کا آغاز مولانا فضل اللہ کے دور میں ہی شروع ہوا تھا اور اس ضمن میں نائب امیر شیح خالد حقانی کی کوششوں کا تمام دھڑے اعتراف بھی کرتے ہیں تاہم اس عمل کو منتقی انجام تک پہچانے میں مفتی نورولی محسود کا نام خاص طورپر لیا جاتا ہے۔
دھڑا بندی کی وجہ سے چونکہ ٹی ٹی پی کمزور ہوگئی تھی لہذا ان کی حملہ کرنے کی صلاحیت پر بھی اثر پڑا تھا۔ تاہم اطلاعات ہیں کہ کچھ عرصے سے تمام چھوٹے بڑے دھڑوں میں اس بات پر سوچ و بچار ہورہا تھا کہ اگر اپنے وجود کو برقرار رکھنا تو پھر سے یکجا ہونا ہوگا اور شاید یہی وہ بنیادی نقط ہے جس نے سب کو متحد ہونے پر مجبور کیا۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال اور افغانستان میں امریکہ کی طرف سے طالبان کے ساتھ ہونے والا معاہدہ اور ان کی طاقت اور نظریئے کو تسلیم کرنے سے شدت پسند تنظیموں کو پھر سے اہمیت حاصل ہوگئی ہے لہذا نئی صف بندیوں میں اب لگتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان بھی خود کےلیے کسی کردار کی تلاش میں ہے ۔
اگرچہ کچھ عرصے سے پاکستان میں ٹی ٹی پی کی کارروائیوں میں کافی حد تک کمی آئی تھی اور ایسا کوئی بڑا حملہ دیکھنے میں نہیں آیا تھا جس سے یہ اندازہ ہو کہ یہ تحریک بدستور فعال ہے۔
لیکن تمام گروپوں کا پھر سے متحد ہونا یقینی طورپر ریاست پاکستان کےلیے ایک خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں۔ گزشتہ تقریناً دو مہینوں سے قبائلی اضلاع بالخصوص شمالی و جنوبی وزیرستان اور باجوڑ میں سکیورٹی فورسز اور حکومتی حامی افراد پر حملوں میں تیزی آئی ہے اور اس کے خلاف مقامی افراد کی طرف سے احتجاج بھی کئے گئے ہیں۔ بیشتر حملے ٹی ٹی پی کی طرف سے قبول کئے گئے ہیں۔