ذرائع کا کہنا ہےکہ گزشتہ روز حکومتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں چیئرمین نیب کی توسیع سے متعلق قانونی نکات کا تفصیلی طور پر جائزہ لیا گیا اور کئی تجاویز پیش کی گئیں۔
وزرا پر مشتمل حکومتی کمیٹی نے سفارشات کا مسودہ تیار کیا جب کہ مسودے میں نیب آرڈیننس میں ایک سے زائد ترامیم کی گئی ہیں۔ ترامیم مشیرپارلیمانی اموربابراعوان، وزیرقانون فروغ نسیم اور شہزاد اکبر نے تیار کی ہیں۔
خیال رہے کہ ایک خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں وفاقی وزراء، مشیران اور معاونین خصوصی شریک ہوئے، اجلاس میں ملکی مجموعی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا اور اس دوران چئیرمین نیب کی تقرری کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔
اس موقع پر وفاقی وزراء نے وزیراعظم عمران خان کو تجویز دی کہ انہیں چیئرمین کی تقرری کے معاملے پر اپوزیشن سے مشاورت کرنی چاہئیے، یہ تجویز سینئر وزراء شاہ محمود قریشی، اسد عمر، فواد چوہدری اور فروغ نسیم سمیت اکثریتی اراکین کی جانب سے دی گئی ۔ وفاقی وزراء کی تجویز کے بعد وزیراعظم عمران خان نے چیئرمین نیب کی تقرری اور نیب قوانین کے معاملے پر اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی شہباز شریف سے مشاورت پر نیم رضا مندی کا اظہار کیا اور ساتھ ہی ہدایات جاری کیں کہ نیب قوانین میں غیر متنازع ترامیم کی جائیں تاکہ احتساب کی ساکھ کو بہتر بنایا جا سکے۔
دوسری جانب اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہےکہ قانون توڑ کر چیئرمین نیب کو توسیع دی جارہی ہے۔
اسلام آباد میں میڈیا سےگفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ قانون کہتا ہے مشاورت کریں لیکن وزیراعظم انکار کررہے ہیں، صدر بھی آرڈیننس پر دستخط کےلیے تیار بیٹھے ہیں۔ انہوں نے پنڈورا پیپرز پر وزیراعظم کا تحقیقات سیل مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کے پاس تحقیقات کرنےکا کوئی حق نہیں، ادارے تحقیقات کریں۔
شاہد خاقان کا کہنا تھا کہ پنڈورا پیپرز میں جن کے نام آئے ہیں ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جو نواز شریف کے ساتھ کیا گیا، نوازشریف وزیراعظم ہوکر جے آئی ٹی میں پیش ہوسکتےہیں تو وزیر کیوں نہیں، ان 700 لوگوں کو جیل میں ڈالیں اور تفتیش کریں۔