ادارے نے کہا ہے کہ 24 لاپتا افراد میں سے چھ فوج کے زیر نگرانی حراستی مراکز میں قید ہیں جبکہ دیگر پانچ لاپتا افراد کا بھی سراغ لگا لیا ہے جو ملک کی مختلف جیلوں میں قید ہیں جبکہ تین ایسے کیسز کو خارج کیا گیا ہے جو لاپتا افراد کے طور پر درج کئے گئے تھے مگر و ہ لاپتا نہیں ہوئے تھے۔
اعدادوشمار میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ماہ کمیشن کے پاس جبری گمشدگیوں کے مزید نئے 32 کیسز کا اندراج ہوا جس سے کل کیسز کی تعداد 2274 ہو گئی ہے۔
کمیشن نے کہا کہ گزشتہ دس سالوں میں 5853 جبری گمشدگیوں کے کیسز کا اندراج ہوا جن میں 5880 کیسز پر کام مکمل ہو چکا ہے جبکہ 2274 جبری گمشدگیوں کے کیسز ایسے ہیں جن کا تاحال کوئی پتا نہیں لگ سکا کہ وہ لوگ کہاں پر ہیں؟
ادارے نے کہا کہ ماہ ستمبر کے مہینے میں جبری گمشدگیوں کے 415 کیسز پر سماعت ہوئی جن میں 215 سماعتیں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں، چالیس لاہور جبکہ 160 کراچی میں ہوئیں۔
اعدادوشمار کے مطابق کمیشن کے پاس درج کئے گئے کیسز میں 3088 افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹ چکے ہیں، جبری طور پر گمشدہ 911 افراد فوج کے زیر نگرانی حفاظتی مراکز میں قید، 571 افراد مختلف جیلوں میں قید جبکہ 225 افراد کی لاشیں ملی ہیں۔
کمیشن کے مطابق اپنے گھروں کو واپس لوٹنے والوں میں سب سے زیادہ تعداد بلوچستان کے رہائشیوں کی ہے اور اب تک 970 افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹ چکے ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر پنجاب ہے جہاں 718 افراد جبکہ خیبر پختونخوا کے 515 افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹ چکے ہیں۔
اعدادوشمار کے مطابق فوج کے زیر نگرانی حراستی مراکز میں قید قیدیوں میں سے سب سے زیادہ تعداد خیبر پختونخوا کے شہریوں کی ہے جہاں 757 افراد قید ہیں۔ کمیشن کی دستاویزات کے مطابق کمیشن کے پاس درج ہونے والے کیسز میں سے 225 افراد کی لاشیں ملی ہیں جن میں زیادہ تعداد پنجاب کی ہے جہاں جبری طور گمشدہ کئے گئے 67 افراد کی لاشیں ملی ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر خیبر پختونخوا ہے جہاں سے 61 لوگوں کی لاشیں ملیں۔
کمیشن نے گزشتہ چھ سالوں میں درج کئے گئے کیسز میں سے 1058 انھیں خارج کیا جو خاندان والوں نے جبری گمشدگیوں کے طور پر درج کئے تھے مگر وہ اپنے مرضی سے گھر چھوڑ چکے تھے۔
واضح رہے کہ گزشتہ چار روز سے جبری طور پر لاپتا کئے گئے شہریوں کے لواحقین کا دھرنا اسلام آباد میں جاری ہے جہاں ملک بھر سے لوگ جبری گمشدگیوں کے خلاف دھرنا دیں رہے ہیں اور اپنے لواحقین کے بازیابی کے واپس انے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔