پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے رہنما عثمان ڈار نے سیاست اور پارٹی چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان ریاست مخالف بیانیے کی حمایت کرتے تھے اور 9 مئی کے حملوں کا مقصد فوج پر دباؤ ڈال کر آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو عہدے سے ہٹانا تھا۔
عثمان ڈار نےحال ہی میں دنیا نیوز کے پروگرام ’آن دا فرنٹ ود کامران شاہد‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے آج سے 12 سال پہلے تحریک انصاف کا پلیٹ فارم ایسا لگا کہ جس میں صاف ستھری سیاست ہوسکتی تھی اور لاکھوں نوجوان عمران خان سے متاثر ہو کر پاکستان تحریک انصاف کا حصہ بن گئے۔
انہوں نے کہا کہ 9 مئی کے بعد ملک بھر میں انقلاب نہیں زلزلہ آیا ہے۔ 9 مئی ایک ایسا شرمناک سانحہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اور وہ ایک ایسا سیاہ دھبہ ہے جس کے ختم ہونےمیں ابھی وقت لگے گا اور اس بات پر زور دینا پڑے گا کہ وہ مائنڈسیٹ جو پارٹی کے اندر مزاحمت کر رہا تھا اور پھر تنصیبات اور اداروں پر حملے ہوئے ہیں۔ 9 مئی کےبعد پی ٹی آئی کی بنیادیں ہل کررہ گئی ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ میں اس نیتجےپرپہنچا ہوں فوج مخالف بیانیےکےساتھ نہیں چل سکتا۔
9 مئی کے واقعات اور ان میں عمران خان کے کردر کے حوالے سے سوال پر عثمان ڈار نے کہا کہ 9 مئی کا واقعہ ایک دن میں رونما نہیں ہوا۔ یہ رجیم چینج آپریشن کے بعد مرکز میں ہماری حکومت چلی گئی تو پاکستان تحریک انصاف دو مائنڈ سیٹ بنے، جن میں سے ایک جس میں مراد سعید، اعظم سواتی، حماد اظہر اور فرخ حبیب تھے، جو ٹکراؤ کی سیاست کی حمایت کرتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسرا مائنڈ سیٹ ہے، جس میں اسد عمر، عمر ایوب، علی محمد خان اور شفقت محمود تھے، جو مفاہمت کے راستے کی بات کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں بذآت خود پاک فوج کی بہت تعظیم کرتا ہوں اور میں بھی مفاہمت کی حمایت کرتا رہا ہوں۔ عمران خان مراد سعید اور دوسروں کے ٹکراؤ کے مائنڈ سیٹ کی زیادہ حمایت کرتے تھے اور وہ فرنٹ لائنرز کو پسند کرتے ہیں۔ وہ ایک تسلسل شروع ہوا بیچ میں لانگ مارچ سمیت اور چیزیں بھی آئیں۔
انہوں نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات کا منصوبہ چیئرمین پی ٹی آئی کی زیر صدارت زمان پارک میں بنایا گیا۔چیئرمین پی ٹی آئی نے فوج سے ٹکراؤ کی پالیسی کی قیادت کی۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کی صورت میں حساس تنصیبات کو نشانہ بنانے کی ہدایت دی گئی۔ حساس تنصیبات کو نشانہ بنانے کی ہدایت خود چیئرمین پی ٹی آئی نے دی۔ پی ٹی آئی کی کور کمیٹی میں یہ ہدایات دی جاتی تھیں۔
پی ٹی آئی کے اندر ٹکراؤ کی بات کرنے والے گروپ پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہاں تک بات کی گئی کہ دباؤ میں لانے کے لیے اگر ہمیں ریاستی اداروں کے اوپر حملہ کرنا پڑتا ہے تو اس کو مدنظر رکھا جائے اور عمران خان کی موجودگی میں یہ تبادلہ خیال ہوتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس دوران لانگ مارچ بھی آیا اور دیگر چیزیں بھی آئیں۔ اس ٹکراؤ کی سوچ والے گروپ کا بیانیہ پارٹی کے اندر سرایت کرتا جا رہا تھا اور عمران خان اس پالیسی کو سپورٹ بھی کر رہے تھے۔
عثمان ڈار نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ 9 مئی کے لیے عمران خان کی گرفتاری کے حوالے سے کبھی پنجاب اور کبھی خیبرپختونخوا سے کارکنوں کو بلایا جاتا تھا۔ مقصد ہیومن شیلڈ کرنا تھا۔ عمران خان کی ہدایات بھی شامل تھیں۔ زمان پارک کے باہر کارکنان جمع ہوجاتے تھے اور خیمے لگ گئے تھے۔ مجھ سمیت کارکن ذہن بنا بیٹھے تھےکہ عمران خان گرفتار ہوجائے گا اور گرفتاری منفرد چیز بن چکی تھی۔ اس کے لیے ڈیوٹیاں اور دن تک مقرر کیے جاتے تھے۔
سوال کیا گیا کہ کیا اس سب کا مقصد یہی تھا کہ عمران خان کو گرفتاری سے بچانے کے لیے کچھ بھی کیا جائے تو ان کا کہنا تھا کہ ایک سوچ ایسی تھی کہ کسی سطح پر عمران خان کی گرفتاری ہوتی ہے تو آپ نے دیکھا جوڈیشل کمپلیکس میں کیا ہوا۔ زمان پارک کے باہر کیا ہوا اور چیزیں بنتی جا رہی تھیں اور کارکنوں کی ذہن سازی ہوئی کہ ہم نے عمران خان کی گرفتاری نہیں ہونے دینی ہے۔
عثمان ڈار نے کہا کہ پارٹی کے اندر جس مائنڈ سیٹ کی بات کر رہا ہوں۔ یہ ریاست مخالف بیانیہ جس سے سپورٹ عمران خان کر رہے تھے اور وہ بن گیا تھا۔ عمران خان نے ریاست مخالف بیانیہ بنایا۔ جنرل باجوہ سے شروع کیا اور کرتے کرتے جنرل عاصم منیر تک آگئے۔کوئی بھی آرمی چیف ہو ان کو ریٹائر ہونا ہے۔ جیسے آج جنرل باجوہ نہیں ہے اور ان کی جگہ جنرل عاصم منیر ہے لیکن ادارہ وہی ہے اور ادارے کی عزت ہے۔ اگر ہم ادارے کے اوپر حملہ آور ہوجائیں تو پھر ملک کی بقا کا سوال ہے اور یہی چیز آتی ہے پھر لانگ مارچ ہوا۔
ان سے سوال کیا گیا کیا لانگ مارچ کا مقصد جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تعیناتی روکنا تھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’بالکل، تعیناتی کو بھی روکنا تھا پھر پورا ایک مائنڈ سیٹ چلتا آرہا ہے۔میرے خیال میں عمران خان کو ادارے کے اندر سے بھی معلومات تھیں کہ لانگ مارچ سے جنرل عاصم منیر نہیں لگائے جائیں گے۔
عثمان ڈار کا کہنا تھا کہ 9 مئی تو ایک تاریخ ہے۔ گرفتاری 9 مئی کو ہوئی اور جو عمل چلتا آرہا تھا وہ کسی بھی وقت متوقع تھا۔اجلاس میں بات ہوتی تھی کہ گرفتاری کی صورت میں ریاستی اداروں پر حملہ آور ہونا ہے اور عمران خان کی گرفتاری بھی متوقع تھی اور کارکن زمان پارک کے باہر اکٹھے ہوتے تھے لیکن یہ پتا نہیں تھا کب گرفتار ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ 9 مئی کو گرفتاری ہوئی تو مراد سعید اور اعظم خان اور دیگر جو مائنڈ سیٹ تھا وہ اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ اگر ہمیں اداروں پر حملہ آور ہونا ہے یا ان کی تنصیبات پر حملہ کرنا ہے تو اس سے دباؤ پیدا ہوسکتا ہے۔
عثمان ڈار سے سوال کیا گیا کہ موجودہ آرمی چیف کو نشانہ بنا کر کیا مقاصد حاصل کرنے تھے تو انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں مقصد یہی ہوسکتا ہے کہ فوج کے اندر کوئی تبدیلی آجائے اور جنرل عاصم منیر پر دباؤ آجائے اور کوئی صورت حال بن جائے اور آرمی چیف کو ہٹنا پڑے گا۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر پوری فوج کے اندر سے دباؤ بڑھتا تو جنرل عاصم منیر کو ہٹنا تھااور حکومت تبدیل ہوگی سب کچھ ہوگا۔
عثمان ڈار کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی بطور جماعت بنیادیں ہل کر رہ گئی ہیں۔ ریاستی اداروں کو نقصان پہنچا ہے لیکن پی ٹی آئی بھی منتشر ہوگئی ہے۔ اگر پارٹی یہاں تک آئی تو یہ عمران خان کے فیصلوں سے آئی ہے۔
عثمان ڈار نے سیاسی مستقبل سے متعلق سوال پر کہا کہ میں نے پچھلے ایک ڈیڑھ ماہ سے بڑا سوچا اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ ریاست مخالف، فوج مخالف بیانیہ چل رہا ہے اور میرے لیے اس بیانیے کے ساتھ چلنا مشکل ہے اور نہ ہی میں اس چیز کے لیے سیاست میں آیا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور سیاست دونوں کو خیرباد کہہ دوں۔ میں نے سیاست تحریک انصاف سے شروع کی تھی اور ختم بھی اسی سے کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے جیسا بندہ سیاست میں مس فٹ ہے۔ میں نے عملی طور پر سیاست کو قریب سے دیکھا ہے۔ ملک میں ایک پٹواری بھی ڈپٹی کمشنر سے مضبوط ہے۔ سیالکوٹ میں ایک پٹواری کو ہٹوانے کے لیے ڈی سی اور کمشنر گجرانوالا کو بے بس دیکھا۔
عثمان ڈار نے کہا کہ 9 مئی کے واقعے نے پاکستان تحریک انصاف کے ہزاروں کارکنوں کی زندگیاں بدل کر رکھ دی ہیں۔جیلوں میں گئے ہیں۔ جو بھی ذمہ دار ہے اس کی شناخت ہونی چاہیے اور اس سے نشان عبرت بنانا چاہیے لیکن جو بے گناہ اور بے قصور ہیں اور جیلوں میں ہیں۔ان کو بھی انصاف ملنا چاہیے، ان کے خاندان پریشان ہیں۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ مجھے پہلے دن پیشکش بھی تھی اور موقع بھی تھا۔پریس کانفرنس کرتا اور پی ٹی آئی چھوڑ جاتا لیکن میں نے پورے 5 ماہ ساری صورت حال دیکھی اور محسوس کیا کیونکہ میں براہ راست کسی واقعے میں ملوث نہیں تھا اور میں دیکھ رہا تھا کوئی جگہ بنے گی لیکن نہ وہ جگہ بن رہی ہے اور نہ وہ بنتی نظر آ رہی ہے اور نہ مجھے بظاہر لگتا ہے کہ حالات بہتر ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی یا اسٹیبلشمنٹ کے بیانیے کا جو ٹکراؤ ہے وہ شاید اور مزید آگے جائے لیکن عمران خان کا آج ووٹ بینک موجود ہے۔ وہ جیل میں ضرور ہیں لیکن ووٹ بینک ہے۔ سیاسی مستقبل تو ان کا ہے کیونکہ جو بھی پی ٹی آئی کی ٹکٹ سے الیکشن لڑے گا وہ سخت مقابلہ ہو گا۔ ویسے ان کے خلاف کیسز ہیں جس کا فیصلہ عدالت کرے گی۔ پاکستان کی تینوں بڑی جماعتوں پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا ووٹ بینک آج بھی موجود ہے۔ ان جماعتوں کو عوام کے لیے ایک ساتھ بیٹھ کر آئندہ کے لیے سوچنا چاہے۔