نیا دور ٹی وی کے پروگرام 'خبر سے آگے' میں اظہار خیال کرتے ہوئے مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ عمران خان کو ہم جتنا زیادہ بولنے کا موقع دے رہے ہیں اتنا ہی وہ بے نقاب ہو رہا ہے۔ ایک بے وقوف کو جتنا زیادہ بولنے کا موقع دیا جاتا ہے اتنا ہی وہ بے نقاب ہوتا ہے۔ اس لیے چینل پہ پابندی لگانے کا فیصلہ درست نہیں ہے۔ عمران خان کا انٹرویو چلنا چاہیے تھا اسے بین نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالتیں آج کل ریمارکس کے ذریعے بہت سارے معاملات میں مداخلت کر رہی ہیں۔ ججز فیصلے نہیں کر رہے وہ انتظامی احکامات دے رہے ہیں۔ کسی جج کو صبح کے اخبار پڑھ کر عدالت میں آ کر ریمارکس نہیں دینے چاہییں۔ انھیں اپنے مقدمے تک محدود رہنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ ججز پر تنقید بڑھتی جا رہی ہے۔
مطیع اللہ جان نے عمران خان کے حالیہ بیان کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کا یہ بیان کافی حد تک ٹھیک ہے کہ کچھ آرمی چیف تگڑے ہوتے ہیں اور کچھ تگڑے نہیں ہوتے۔ ہمیں صرف عمران خان پر تنقید نہیں کرنی چاہیے بلکہ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ملک میں واقعی کچھ آرمی چیف تگڑے تھے اور کچھ کمزور تھے۔ تگڑے آرمی چیف تھے تو بھٹو کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ تگڑے آرمی چیف تھے تو سیاست دانوں کو جیل میں بھجوایا جاتا رہا۔
معروف کالم نگار اعجاز حیدر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ہم جس صورت حال سے دوچار ہیں اس کھیل میں فوج کا منفی کردار سرفہرست ہے۔ فوج کے منفی کردار سے فائدہ لینے والے صرف نواز شریف نہیں ہیں عمران خان بھی ہیں اور عمران خان یہ فائدہ 2018 سے نہیں بلکہ اس سے بھی پہلے سے لے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج کے ادارے کا بنیادی اصول نظم و ضبط ہے۔ اس نظام میں کوئی بھی بگاڑ پیدا ہو تو وہ صرف فوج کے لیے ہی نقصان دہ نہیں ہے بلکہ ملک کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ عمران خان اس اصول میں دراڑ ڈال رہے ہیں۔ اگر آپ پاکستان آرمی کے نظم و ضبط میں دراڑ ڈال رہے ہیں تو سوچ لیں آپ کیا بننا چاہتے ہیں؟ شام یا لیبیا؟ اعجاز حیدر کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کا آئین اور قانون میں ایک طریقہ کار ہے۔ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ جو جرنیل پروموٹ ہو کے یہاں تک آئے ہیں ان میں سے کچھ اس قابل نہیں ہیں کہ انہیں آرمی چیف بنا دیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ کا یہ موقف درست ہے کہ فوج کو اپنے آئینی دائرے میں رہنا چاہیے، عدلیہ کو اپنے آئینی دائرے میں رہنا چاہئیے مگر فوج کو بطور ادارہ آپ اپنے بیان سے نقصان نہیں پہنچا سکتے۔
خان صاحب سب سے پہلے جنرل مشرف کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے۔ جنرل ظہیر الاسلام کی مداخلت پر بھی خان صاحب کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ ابھی بھی خان صاحب اسٹیبلشمنٹ کو یہ کہ رہے ہیں کہ وہ نیوٹرل کیوں ہیں یعنی وہ میرا ساتھ دیں اور نیوٹرل نہ رہیں۔ یہ بھی خان صاحب کا دہرا معیار ہے۔ ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ فوج میرٹ پہ کام کرے اور پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ نیوٹرل نہ رہیں۔ عمران خان کی خواہش یہ ہے کہ میں نے واپس آنا ہے۔ یہ خواہش جائز ہے۔ مگر وہ یہ کہ رہے ہیں کہ میں ہی وہ اکیلا شخص ہوں جو ملک کو بچا سکتا ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ ٹرمپ بھی یہی کہتا تھا۔ خان صاحب اور پاکستان تحریک انصاف کی ایک جگہ ہے پاکستانی سیاست میں۔ اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مگر خان صاحب کو یہ بھی سمجھنا چاہیئے کہ جو لوگ ان کو ووٹ نہیں دے رہے وہ بھی پاکستانی ہیں۔
بول ٹی وی کی بندش سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس وقت صحافت کا معیار بہت نیچے چلا گیا ہے۔ اس وقت زیادہ تر چینل کسی نہ کسی کے ساتھ ہیں۔ اس حوالے سے ہم امریکہ جیسے ہو گئے ہیں۔
معروف کالم نگار مزمل سہروردی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ عمران خان وہیں پہنچے ہیں جہاں الطاف حسین پہنچے تھے۔ الطاف حسین بھی روز ایک ایسی بات کرتے تھے جن کی اگلے دن ساری پارٹی وضاحتیں کرتی رہتی تھی۔ چلتے چلتے وہ ایک ایسی ریڈلائن کراس کرگئے جس کے بعد پارٹی نے انہیں چھوڑ دیا۔ عمران خان بھی اب اسی ریڈلائن کو کراس کر رہے ہیں۔ صدر عارف علوی نے بھی آج ان کے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا۔ ان کے حمایتی یوٹیوبرز بھی خاموش ہیں۔ پارٹی کے اندر سے بھی لوگ عمران خان کے اس بیان کی حمایت نہیں کر رہے۔ آہستہ آہستہ عمران خان اسی بند گلی میں پہنچ رہے ہیں جہاں الطاف حسین پہنچے تھے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی عدلیہ بھی اب عمران خان کی آزادی اظہار سے متعلق پٹیشن سننے سے ہچکچائے گی۔ انہوں نے منیز نیازی کے پنجابی شعر کی پیروڈی کرتے ہوئے کہا کہ:
کجھ شہر دے لوگ وی ظالم نیں پر خان نوں وی مرن دا بوہت شوق اے
مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ عمران خان عوام میں مقبول تو ہے مگر کیا مقبولیت سر عام گالیاں دینے کی اجازت دیتی ہے؟ کیا مقبولیت ملکی اداروں کو پیروں تلے روندنے کی اجازت دیتی ہے؟
پروگرام میں مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ بول ٹی وی ایک پروپیگنڈا چینل تھا مگر اس کا یہ حل نہیں کہ اسے بند کر دیں۔ بول پر اعتراض تو ہم بھی اٹھاتے رہے ہیں شروع میں مگر تب عمران خان کی طرح بول بھی لاڈلا تھا۔ اب عمران خان کی طرح بول کے بھی دن پورے ہو گئے ہیں۔
پروگرام 'خبر سے آگے' کے میزبان رضا رومی کا کہنا تھا کہ عمران خان اس پروپیگنڈے کی مجسم صورت ہیں جو ریاست پاکستان 75 سالوں سے کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی لیبارٹری میں تیار کیا گیا مٹی کا مادھو تھا جو اپنے بنانے والوں کو ہی الٹا پڑ گیا ہے۔ ٹرمپ، مودی اور اردغان نے جو کیا ہم اس لہر میں آ گئے اور عمران خان کی حمایت میں نکل پڑے۔ عمران خان ایک پروڈکٹ ہے۔ ایک پروڈکٹ بند ہوگی تو اسی طرح کے دو تین اور تیار کھڑے ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پروڈکٹ کی بجائے یہ لیبارٹری بند ہونی چاہیے۔ رضا رومی کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اس وقت جو مسئلہ درپیش ہے اس کا واحد حل یہ ہے کہ آئین پاکستان پر مکمل طور پر عمل کیا جائے۔