اسی سلسلہ میں صدر ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن ڈیرہ غازی خان ڈاکٹر نعمان چودھری سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار نے گذشتہ دنوں ایک بیان میں کہا کہ قرنطینہ سنٹر ڈیرہ غازی خان میں 600 لوگ صحت یاب ہوگئے ہیں اس بارے میں انہیں آگاہ کیا گیا تھا کہ آپ کا یہ بیان غلط ہے اور اس کی درستگی کریں کیونکہ 14 تاریخ کو زائرین کو لایا گیا تھا اور صرف ایک ٹیسٹ کر کے مثبت آنے والے کیسز میں سے منفی نتائج والے لوگوں کو علیحدہ کر کے صرف دس دن کے اندر باقی لوگوں کو گھر بھیج دیا۔ حالانکہ قرنطینہ کا کم از کم وقت چودہ دن ہے۔ جس میں پتا چلتا ہے کہ آیا کون کون لوگ اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں، یہاں ڈی جی خان میں مثبت اور منفی کیسز والے افراد قرنطینہ میں ایک ساتھ رہ رہے تھے۔ لیکن پنجاب حکومت اور انتظامیہ نے میری یہ بات نہیں سنی۔ حالانکہ دوسری مرتبہ ٹیسٹ کیے جانا ضروری تھا۔
ڈاکٹر نعمان کے مطابق اب اس خطرے کا قوی امکان ہے کہ جب یہ لوگ مختلف اضلاع میں اپنے اپنے گھر جائیں گے اور ادھر مثلا 8 لوگوں سے ملتے ہیں تو وہ مزید 10 لوگوں سے ملیں گے اور پھر خدانخواستہ ان میں کرونا وائرس ہوا تو آپ اندازہ بھی نہیں لگا سکتے کہ اس سے کتنا بڑا نقصان ہو گا۔ یہ نقصان صرف اس ایک بے احتیاطی اور جلدبازی کی وجہ سے ہو گا۔
ڈاکٹر نعمان نے مزید بتایا کہ آج 17 روز ہوگئے ہیں زائرین کو آئے ہوئے اور مسلسل روز اول سے اب تک ڈی جی خان کی ڈاکٹرز کمیونٹی کام کر رہی ہے۔ ٹیچنگ ہسپتال میں روزانہ کی بنیاد پر ایمرجنسی میں 500 کٹس کی ضرورت ہے لیکن 17 دن گزرنے کے باوجود بھی ابھی تک حکومت کی طرف سے صرف ایک ہزار کٹس اور 300 شہباز شریف، مسلم لیگ ن کی جانب سے مہیا کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ تمام عملہ بغیر کٹس اور سہولیات کے کام کر رہا ہے۔ ٹوٹل تین ہزار کے قریب عملہ ہے، جس میں سے 600 لوگ روزانہ ایمرجنسی ڈیوٹی دیتے ہیں۔ اور سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے دو ڈاکٹرز (ڈاکٹر اسامہ اور ڈاکٹر صبا) جنہوں نے زائرین کی سیمپلنگ کی تھی ان میں کرونا ٹیسٹ مثبت آئے ہیں۔
مقامی شہری اور سماجی کارکن فیاض لغاری نے بتایا کہ جب زائرین کو تفتان سے ڈیرہ غازی خان لایا جارہا تھا تو ہم نے احتجاج کیا کہ زائرین ہمارے بھائی ہیں لیکن کرونا وائرس ہمارا قاتل ہے، لہذا انہیں ڈیرہ غازی خان آبادی کے اندر مت لائیں بلکہ تفتان بارڈر کے نزدیک رکھیں اور وہاں کسی آبادی سے ہٹ کر کوئی ان کا اچھا بندوبست کریں، صحت یابی کے بعد یہاں لایا جائے لیکن نا ہی ضلعی انتظامیہ اور نا ہی پنجاب حکومت نے ہماری بات سنی اور 800 سے زائد لوگوں کو یہاں لا کر رکھ دیا۔
مزید بتایا کہ صوبائی حکومت کی طرف سے بتایا گیا کہ 200 زائرین اور 5 مقامی افراد میں کرونا کی تصدیق ہوئی لیکن میرے مطابق تعداد زیادہ ہے اور حکومت عوام کو صحیح بات نہیں بتا رہی۔ یہاں پر انتظامیہ نے جو سب سے بڑی غلطی کی وہ یہ ہے کہ سب لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ایک ساتھ ایک جگہ رکھ دیا۔ حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ انہیں الگ الگ رکھا جاتا۔
فیاض کہتے ہیں دوسری جانب وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کی طرف سے ابھی تک ڈیرہ غازی خان کی عوام کیلئے راشن وغیرہ کا بندوبست بھی نہیں کیا گیا، چونکہ زیادہ تر آبادی غریب ہے اور گھروں میں محصور ہونے سے ان کا روزگار اور آمدنی بند ہونے سے لوگوں کے ہاں راشن کی بھی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ لہذا حکومت سے درخواست ہے کہ ٹائیگرفورس کے بجائے بلدیاتی نظام کی طرف توجہ دیں کیونکہ مقامی سطح پر مقامی نمائندہ ہی صحیح صورت حال کا جائزہ اور خمیازہ لگا سکتا ہے۔
مزید کہا کہ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کی جانب سے الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ انتظامیہ نے لاپرواہی کا مظاہرہ کیا اور بغیر دوسری مرتبہ ٹیسٹ کیے لوگوں کو گھر بھیجنا شروع کر دیا ہے جو انتہائی خطرناک پہلو ہے۔
کمشنر ڈیرہ غازی خان نسیم صادق نے تمام الزامات کو مسترد کیا اور بتایا کہ ہمارے تین رکنی ڈاکٹرز کی کمیٹی ہے اور یہ اس کمیٹی نے کی طرف سے کلئیر کیے جانے کے بعد لوگوں کو بھیجا گیا ہے۔ اور ہم نے سینئر ڈاکٹرز کو ماننا ہے نا کہ دوسرے کسی کو۔ اس کیساتھ انہوں نے بتایا کہ ڈی جی خان میں سب ٹھیک ٹھاک ہے صرف ایران سے جو 800 سے زائد لوگ آئے تھے ان میں سے 208 لوگوں کا کرونا مثبت آیا، وہ زیرعلاج ہیں۔ باقی جتنے لوگ آئے تھے الحمداللہ سبھی خیروخیریت سے گھر واپس جا رہے ہیں۔