علما اکرام مسلمہ بن کذاب کو جھوٹا مدعی نبوت تو کہہ دیتے ہیں مگر مسلمہ بن کذاب کے مذہب کی تشریح نہیں کرتے ہیں کہ مسلمہ نے مذہب کون سا تشکیل دیا تھا اور کیا مسلمہ بن کذاب کا مذہب آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ جاوید ہے کہ نہیں ہے۔ مسلمہ بن کذاب اور دین محمدی ﷺ میں بنیادی فرق کیا ہے؟
مسیلمہ کا تعلق یمامہ کے بنی حنیفہ سے تھا۔ اس کا پورا نام مسیلمہ بن ثمامہ بن کبیر بن حبیب حنفی وائلی اور اس کی کنیت أبوثمامہ ہے۔ لقب رحمان تھا اور رحمان یمامہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس نے سنۃ الوفود (9ہ۔ق) کو اپنے خاندان کے ساتھ یمامہ سے مدینہ ہجرت کی تھی۔ مسلمہ کذاب رسول پاک ﷺ کی نبوت کا قائل تھا اور نبوت کی گواہی دیتا تھا۔ مسیلمہ نے جب پیغمبری کا دعویٰ کیا تو رسول خدا ﷺ نے اسے مسیلمہ کذاب کا نام دیا تھا۔ اور اس کو ہارون اور مسلمہ بھی کہا گیا ہے۔
33493/
دعوی نبوت کے بعد مسلمان تحقیر کی خاطر مسیلمہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ مسلمہ بن کذاب نے کسی نئے مذہب کی بنیاد نہیں رکھی تھی بلکہ عہد رسالت کے ساہوکاروں کی مدد سے دین محمدی ﷺ کو ہی مذہبی شکل دے کر عبودیت پر زور دیا اور دین کو پوجا پاٹ میں تبدیل کر دیا تھا۔ مسلمہ کذاب پوجا پاٹ کے مذہب کو فروغ دینے میں کامیاب رہا اور دین اسلام کی بجائے مذہب اسلام قبولیت پا گیا۔ مسلمہ کذاب اصل میں رسول پاک ﷺ کے مقابل اپوزیشن لیڈر کے طور پر کھڑا ہوا تھا۔ مسلمہ بن کذاب نے رسول خدا ﷺ کو خط لکھا کہ وہ بھی آپ ﷺ کی نبوت میں شریک کار ہے اور نصف زمین میری ہے اور نصف قریش کی ہے۔ رسول پاک ﷺ کا مسلمہ کو دیے گئے جواب پر غور کریں۔
آپ نے مسلمہ کو کذاب قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ زمین اللہ کی ہے۔ وہ اپنے متقی بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے۔
مطلب مسئلہ سراسر وسائل کی تقسیم کا تھا۔ جنگ یمامہ بھی خلافت (مدینہ کی حکومت) کے لئے تھی۔ مسلمہ کذاب خلافت میں شراکت چاہتا تھا۔ اگر کوئی اور مسئلہ ہوتا تو مسلمہ نصف زمین کی بات نہ کرتا بلکہ اپنی رسالت یا نبوت کی وکالت کرتا اور اپنے سچا ہونے کی کوئی دلیل دیتا مگر مسلمہ کذاب نے صرف زمین کی بات کی تھی۔ مسلمہ کذاب رسول پاک ﷺ کی حقانیت اور نبوت و رسالت کی شہادت دیتا تھا کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ جس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ دین محمدی ﷺ کی غرض وغایت محض عبادات نہیں تھی۔ اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت کا نفاد تھا۔
دین محمدی ﷺ کا منہاج غلام داری نظام کا خاتمہ، رزق کی مساوی تقسیم، اجارہ داریوں اور مڈل مین سے نجات اور نجی ملکیت کا خاتمہ کر کے ایسی ریاست تشکیل دینا تھا جو ہر قسم کے استحصال سے پاک ہو۔ عبادات کی تبلیغ کرنے پر رسول خدا ﷺ کی مزاحمت نہیں کی جا رہی تھی۔ پوجا پاٹ کی دعوت دینے پر آپ ﷺ کو لہو لہو نہیں کیا گیا تھا۔ رسول پاک ﷺ کے قتل کا سوچنے والوں کے مفادات کو زد پڑ رہی تھی۔ اجارہ اداریاں ختم ہو رہی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ مدنیہ کی ایلیٹ کلاس کے لوگوں نے مسلمہ کذاب کا ساتھ دیا اور حضرت محمد ﷺ کی جان کے دشمن بن گئے تھے۔ (جاری)